کاس گنج: ’خاموش رہنے کے لیے پولیس نے دیے 5 لاکھ روپے‘، الطاف کے والد کا دعویٰ
چاند میاں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے انھیں بتایا کہ پیسہ حکومت کی جانب سے ہے، اتنا ہی نہیں ان سے معاملے کو آگے نہیں بڑھانے کے لیے بھی کہا گیا۔
کاس گنج میں 21 سالہ مسلم لڑکے الطاف کی پولیس حراست میں موت کا معاملہ دن بہ دن طول پکڑتا جا رہا ہے۔ یہ الزام لگانے کے بعد کہ اسے مقامی پولیس کو کلین چٹ دینے کے لیے مجبور کیا گیا تھا، مہلوک کے والد چاند میاں نے اب دعویٰ کیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اسے کاغذ پر اپنا انگوٹھا لگانے کے لیے مجبور کیا اور اس ایشو پر خاموش رہنے کے لیے 5 لاکھ روپے نقد دیے تھے۔
چاند میاں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکاروں نے انھیں بتایا کہ پیسہ حکومت کی جانب سے ہے۔ اتنا ہی نہیں، ان سے معاملے کو آگے نہیں بڑھانے کے لیے بھی کہا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گوراہا پولیس چوکی پر پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسران کی موجودگی میں انھیں 500 روپے کے نوٹوں کے بنڈلوں میں نقدی مہیا کرائی گئی تھی۔ چاند میاں نے کہا کہ پیسہ اب بھی ان کے پاس ہے۔ میں اسے واپس کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں بس اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہتا ہوں۔
مرحوم الطاف کے والد نے کہا کہ کاغذ میں لکھا تھا کہ اس کا بیٹا ڈپریشن سے متاثر تھا اور اس نے کوتوالی صدر تھانہ کے لاک اَپ کے واش روم میں خودکشی کر لی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے رشتہ داروں کو بھی اس معاملے کے بارے میں میڈیا سے بات نہ کرنے اور لاش کو خاموشی سے دفن کرنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ ایک دیگر رشتہ دار نے کہا کہ اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ویریندر سنگھ اندولیا (اب معطل)، کچھ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ایک مقامی کارکن گوراہا پولیس چوکی پر موجود تھے، جب پیسہ الطاف کے والد کو سونپا گیا تھا۔
کاس گنج کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) بوترے روہن پرمود نے حالانکہ اس کے طرح الزام سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس نے الطاف کے والد کو کوئی نقد پیسہ نہیں دیا ہے۔ معاملے کے بارے میں پوچھے جانے پر ضلع مجسٹریٹ ہرشیتا ماتھر نے کہا کہ ابھی تک مہلوک کے کنبہ کے لیے مالی امداد کا کوئی اعلان نہیں ہوا ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں ریاستی حکومت کو تجویز بھیجی ہے۔ ہم الطاف کے کنبہ میں سے ایک کو ملازمت دلوانے کی بھی کوشش کریں گے۔
یو پی کے ایڈیشنل ڈی جی پی راجیو کرشن نے کہا کہ مجھے اس طرح کے کسی بھی لین دین کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ بھلے ہی پورے معاملے کو چھپانے کے لیے نقدی سونپ دی گئی ہو، یہ اب بے معنی ہے۔ مہلوک شخص کے والد کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ جانچ کا فوکس حراست میں ہوئی موت پر ہے۔ اس تعلق سے مجسٹریل اور محکمہ جاتی جانچ بھی کی جا رہی ہے۔
اس درمیان کاس گنج پولیس نے 16 سالہ ہندو لڑکی کو اغوا کنندگان کے چنگل سے چھڑا لیا ہے جس کا مبینہ طور پر الطاف اور ایک نامعلوم دوست کے ذریعہ اغوا کیا گیا تھا۔ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ اسے بیان درج کرانے کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اتر پردیش کے کاس گنج میں گزشتہ ہفتے منگل کو چاند میاں کا بیٹا الطاف تھانہ کے لاک اَپ کے واش روم میں مبینہ طور پر 2 فیٹ اونچے پانی کے پائپ سے لٹکا پایا گیا تھا۔ پولیس اسے ایک لڑکی کو بھگانے کے الزام میں گرفتار کر تھانے لے گئی تھی۔ گھر والوں کا الزام ہے کہ الطاف کی موت پولیس کی پٹائی کے سبب ہوئی۔ علاوہ ازیں 5 فیٹ سے زیادہ قد رکھنے والے الطاف کی 2 فیٹ اونچی نل کی ٹونٹی سے لٹک کر خودکشی کرنے کی پولیس کی تھیوری کسی کے گلے نہیں اتر رہی ہے۔
(بشکریہ نوجیون)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔