کاس گنج: حالات ہنوز کشیدہ، اقلیتی طبقہ دہشت میں، انٹرنیٹ خدمات بند

مہلوک کے والد سبھاش گپتا کی جانب سے نامزد تین لوگوں اور انتظامیہ کی جانب سے نامزد چھ لوگوں سمیت پولس نے 50 افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

فرقہ وارانہ فساد کے بعد کاس گنج کے حالات اب تک معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔ ہفتہ کی صبح سینکڑوں گاڑیوں میں آگ لگائے جانے کے بعد رات بھی خوف کے عالم میں گزری۔ اقلیتوں نے خود کو گھروں میں قید کر لیا اور علاقے میں انٹرنیٹ خدمات بند ہونے کی وجہ سے وہ صرف فون پر اپنی تکلیف لوگوں سے بیان کر پا رہے تھے۔ کشیدہ حالات کے مدنظر اسکول و کالج ہفتہ کے روز بھی بند رہے اور حالات کے قابو میں آنے تک بند رہنے کا امکان ہے۔ ضلع مجسٹریٹ آر پی سنگھ کا کہنا ہے کہ "سوشل میڈیا سے افواہ کو طول دیا جا رہا ہے اور اس سے نفرت بڑھ رہی تھی اس لیے انٹرنیٹ خدمات کو بند کرنا ضروری ہو گیا تھا۔"

اس درمیان ہنگامہ کے دوران ہلاک ہونے والے نوجوان چندن گپتا کے والد سبھاش گپتا کی جانب سے نامزد تین لوگوں اور انتظامیہ کی جانب سے نامزد چھ لوگوں سمیت پولس نے 50 افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ کاس گنج میں اے ڈی جی اجے آنند، کمشنر سبھاش چندر شرما، آئی جی سنجیو گپتا اور لکھنو سے بھیجے گئے آئی جی ڈی کے ٹھاکر موقع پر کل سے ہی تعینات ہیں۔ لیکن کل دن بھر ہوئے تشدد میں پولس مشتعل بھیڑ پر قابو پانے میں ناکام ہی نظر آئی۔ چونکہ یہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے اس لیے وہ انتہائی خوف کے ماحول میں ہیں۔ کل شام بلرام گیٹ کے باہر چھڑا اڈے پر پٹرول پمپ پر کچھ لوگوں نے فائرنگ کر دی اور پولس کے آنے سے پہلے ہی فرار ہو گئے۔ اس فائرنگ کے بعد علاقے میں مزید دہشت کا ماحول قائم ہو گیا اور لوگوں نے خود کو گھروں میں قید رکھنا ہی بہتر سمجھا۔

فرقہ وارانہ فساد میں زخمی ہوئے نوشاد کا اس وقت علاج چل رہا ہے اور پہلی مرتبہ اس کا بیان سامنے آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے جسم پر پولس کی گولی لگی ہے۔ اس بیان کے بعد لوگوں میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور لوگ یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ آخر پولس نے لوگوں کے بیچ گولی کس طرح چلا دی۔ بہر حال، گولی لگنے سے زخمی ایک مسافر محمد اکرم کی حالت اب تک سنگین بنی ہوئی ہے۔

فرقہ وارانہ فساد کے بعد کچھ بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ اشتعال انگیز بیان دینے سے ماحول میں مزید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ اشتعال انگیز بیان پر مبنی کئی ویڈیو وہاٹس ایپ اور سوشل میڈیا میں گشت کر رہے ہیں۔ پولس کا کہنا ہے کہ وہ حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن لوگوں، خصوصاً اقلیتی فرقہ میں خوف کا عالم برقرار ہے۔ کاس گنج میں بریلی-متھرا شاہراہ پر بھی دہشت کا عالم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہاں ٹیمپو والوں کے ساتھ مار پیٹ کا واقعہ بھی پیش آیا ہے۔ حالات زیادہ خراب نہ ہوں اس لیے پولس نے یہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کا راستہ بدل دیا ہے۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کے کاس گنج شہر میں فساد کی جو وجہ بتائی جا رہی تھی حقیقت اس سے کچھ الگ ہی سامنے آئی۔ ہندو تنظیموں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اے بی وی پی کی ’ترنگا یاترا‘ کی مخالفت کی گئی تھی جس کے بعد تشدد پیدا ہوا، لیکن تحقیق کے بعد یہ کہانی پوری طرح سے جھوٹی ثابت ہوئی۔ کاس گنج کے مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ ’ترنگا‘ کی مخالفت کیوں کریں گے، ترنگا تو ان کی شان ہے۔ دراصل یومِ جمہوریہ کے روز یہاں آئے ہندو تنظیموں کے نوجوان ’بھگوا پرچم‘ لہرا رہے تھے۔ مقامی باشندہ فہیم احمد اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ ’’مسلمانوں نے خود عبدالحمید چوک پر پرچم کشائی کی تقریب کا انعقاد کیا تھا، یہاں حب الوطنی سے سرشار ماحول تھا۔ اوپر ترنگا پرچم لہرا رہاتھا اور نیچے ایک خوبصورت رنگولی بنی ہوئی تھی جہاں حب الوطنی پر مبنی نغمے بج رہے تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کو اپنے ملک سے محبت ہے، وہ بھی ترنگا پرچم لہرا رہے تھے کہ اچانک ہندو تنظیموں کی ایک ٹیم آئی۔ اس میں تقریباً 50 موٹر سائیکل تھیں جس پر سوار لوگوں نے بھگوا پرچم لیا ہوا تھا۔ یہ سیدھے مسلمانوں کی تقریب میں گھس گئے۔‘‘

قابل غور ہے کہ گولی لگنے سے ہلاک نوجوان چندن سے اے بی وی پی نے خود کو کنارہ کر لیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ چندن اے بی وی پی کارکن نہیں تھا۔ اس سلسلے میں چندن کے والد سبھاش گپتا کہتے ہیں کہ ’’ان کا بیٹا ہندو تنظیم سے جڑا ہوا تھا اس کی جانکاری انھیں نہیں تھی۔‘‘ بہر حال، مسلم محلوں میں چھاپہ ماری کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی باشندہ رئیس احمد اس واقعہ سے دہشت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہنگامہ قصائی مارکیٹ میں ہوا لیکن دہشت میں پورا علاقہ ہے اور مسلمانوں نے خود کو گھروں میں قید کر لیا ہے اور وہ خوف میں مبتلا ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔