کرناٹک: دسہرہ کے موقع پر ہجوم کی طرف سے مدرسہ میں زبردستی گھس کر پوجا کرنے کا معاملہ، 4 ملزمان گرفتار

کرناٹک کے بیدر ضلع میں دسہرہ کے موقع پر ایک مذہبی جلوس کے دوران ایک ہجوم ایک تاریخی مدرسہ کے احاطے میں داخل ہوا اور نعرے لگاتے ہوئے پوجا کی، معاملہ میں 4 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے

تصویر ٹوئٹر
تصویر ٹوئٹر
user

قومی آواز بیورو

بیدر: کرناٹک کے بیدر میں دسہرہ کے موقع پر مذہبی جلوس میں شامل کچھ لوگوں کی طرف سے زبردستی مسجد اور مدرسہ میں گھس کر پوجا کرنے کا معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔ اس معاملہ میں پولیس کی جانب سے متعدد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، جن میں سے 4 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے قصورواروں کی گرفتاری نہ ہونے کی صورت میں بعد نماز جمعہ احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ 

نیوز پورٹل اے بی پی  پر شائع خبر کے مطابق دسہرہ کے موقع پر جلوس نکالتے ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم کرناٹک کے بیدر ضلع میں ایک تاریخی مدرسہ کے احاطے میں داخل ہوا۔ اس دوران بھیڑ نے ایک کونے میں پوجا بھی کی۔ الزام ہے کہ ہجوم  میں شامل لوگوں نے مدرسہ کے گیٹ کا تالا توڑا اور پھر اندر چلے گئے۔ اس واقعے کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے، جس میں کچھ لوگ مدرسے کی سیڑھیوں پر نظر آ رہے ہیں۔ 


پولیس نے اس معاملے میں شکایت درج کر لی ہے۔ معلومات کے مطابق پولیس نے نو افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے چار لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ مسلم تنظیموں نے اس معاملے پر احتجاج درج کرایا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی گرفتاری نہیں کی گئی تو جمعہ کی نماز کے بعد زبردست مظاہرہ کیا جائے گا۔ ہجوم جس مدرسے کے احاطے میں داخل ہوا اسے بیدر کے محمود گواں مدرسہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1460 میں بنایا گیا یہ مدرسہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت آتا ہے اور قومی اہمیت کی یادگاروں کی فہرست میں شامل ہے۔

وائرل ویڈیو میں بھیڑ وندے ماترم اور ہندو دھرم کی جئے کے نعرے لگاتی نظر آ رہی ہے۔مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ بدھ  یعنی 5 اکتوبر کو ہجوم تالا توڑ کر مدرسہ کے احاطے میں داخل ہوا۔ ایک پولیس افسر نے بتایا کہ نو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔


آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اس معاملے پر ٹوئٹ کرکے ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اویسی نے اس واقعے کی ویڈیو ٹویٹ کی اور لکھا، ’’تصاویر کرناٹک کے بیدر میں واقع تاریخی محمود گواں  مسجد اور مدرسہ کی 5 اکتوبر کی ہیں۔ انتہا پسندوں نے اس کا تالا توڑ دیا اور اسے ناپاک کرنے کی کوشش کی۔ بیدر پولیس اور بسواراج بومئی آپ ایسا کیسے ہونے دے سکتے ہیں؟ بی جے پی صرف مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے ایسی سرگرمیوں کو فروغ دے رہی ہے۔

ناقدین نے بی جے پی پر ریاست کے کچھ حصوں میں فرقہ وارانہ تجربات کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس طرح کے الزامات کرناٹک میں حجاب کیس سے شروع ہوئے تھے۔ ہندو تنظیموں کی جانب سے مندروں کے میلوں میں مسلمانوں کی دکانوں پر پابندی لگانے کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ اسی دوران اگست میں ہبلی کے عیدگاہ گراؤنڈ میں گنیش چترتی منانے پر تنازعہ ہوا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔