وزیر نہ بنائے جانے پر کرناٹک بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ناراض، پارٹی کو 'دلت مخالف' قرار دیا
بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور دلت لیڈر رمیش جیگاجناگی نے مرکزی حکومت میں وزارتی عہدہ نہ دیئے جانے پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ رمیش نے دعویٰ کیا کہ زیادہ تر مرکزی وزراء اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں
نئی دہلی: کرناٹک سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور دلت لیڈر رمیش جیگاجناگی نے کھل کر پارٹی کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ مرکزی وزراء میں سے زیادہ تر اعلیٰ ذات سے ہیں۔ جبکہ دلتوں کو کنارہ کش کر دیا گیا ہے۔ رمیش جیگاجیناگی سات بار ایم پی رہ چکے ہیں اور 2016 سے 2019 تک وزیر مملکت بھی رہ چکے ہیں۔ فی الحال وہ وجے پورہ سیٹ سے الیکشن جیت چکے ہیں۔
منگل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایم پی رمیش نے کہا، بہت سے لوگوں نے مجھے بی جے پی میں شامل نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ یہ (پارٹی) 'دلت مخالف' ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کابینہ وزیر بننا چاہتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے مرکزی وزیر کے عہدے کا مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لیے عوام کی حمایت اہم ہے لیکن جب میں (انتخابات کے بعد) واپس آیا تو لوگوں نے مجھے بہت ڈانٹا۔ بہت سے دلتوں نے مجھ سے بحث کی کہ بی جے پی دلت مخالف ہے اور مجھے پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیں : سات ریاستوں کی 13 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات کے لیے ووٹنگ
انہوں نے کہا، مجھ جیسا دلت شخص واحد شخص ہے جس نے جنوبی ہندوستان میں سات انتخابات جیتے ہیں۔ تمام اونچی ذات کے لوگ کابینہ کے عہدوں پر ہیں۔ رمیش نے پوچھا کہ کیا دلتوں نے کبھی بی جے پی کی حمایت نہیں کی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے۔
72 سالہ رمیش جیگاجیناگی پہلی بار 1998 میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے تھے اور اس کے بعد سے تمام انتخابات جیت چکے ہیں۔ وہ 2016 اور 2019 میں پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کے وزیر مملکت رہ چکے ہیں۔
کرناٹک میں کل 28 سیٹیں ہیں اور بی جے پی نے اس بار 17 سیٹیں جیتی ہیں۔ این ڈی اے کی حلیف جے ڈی ایس نے 2 سیٹیں جیتی ہیں۔ کانگریس نے 9 سیٹیں جیتی ہیں۔ کرناٹک سے مودی کابینہ میں چار چہرے ہیں۔ ان میں پرہلاد جوشی کے علاوہ جے ڈی ایس کے شوبھا کراندلاجے، وی سومنا اور ایچ ڈی کمارسوامی کے نام شامل ہیں۔ مودی حکومت میں 29 او بی سی، 28 جنرل، 10 ایس سی، 5 ایس ٹی اور 7 خواتین کو وزیر بنایا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔