سپریم کورٹ کے رویہ پر فکر تو ہے :سبل

Getty Images
Getty Images
user

قومی آواز بیورو

ہندوستان کے معروف وکیل اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے ایک خاص بات چیت میں اپنے خیالات کا بڑی بیباکی سے اظہار کیا ۔ انکے ساتھ ہوئی اس گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ کچھ فیصلے تشویشناک ہیں اور ان پر فکرمند ہونا ایک فطری بات ہے ۔ اس گفتگو کے کچھ اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

سوال: اگر ہم یہ کہیں کہ آج عدلیہ نےحکومت کی آئڈیولوجی اور ایجنڈے کی لائن اختیار کر لی ہے تو کیا آپ اس سے اتفاق کریں گے ؟

سبل:ایسا کہنے پر تو میں توہین عدالت کا مرتکب ہوں گا۔ میں یہ ضرور مانتا ہوں کہ جو معیار سماج میں رائج ہیں عدلیہ ان معیار ات سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ جج سماج سے متاثر تو ہوتے ہیں۔ ان سب کے باوجود میں وہ بات رکھنا چاہتا ہوں جس کو لے کر مجھے عدلیہ سے پریشانی ہے۔میں اس سارے معاملے میں آزادی سے اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا کیونکہ میں اس معاملے میں ایک وکیل ہوں لیکن مثال کے طور پر جب سپریم کورٹ کیرالہ میں دو بالغوں کے بیچ ہونے والی شادی کی جانچ نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے )سے کرانے کا حکم دے تو یہ فکر کی بات ہے۔

سوال :کیا آپ لو جہاد کیس کے تعلق سے بات کر رہے ہیں؟

سبل:کورٹ نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی ہے یہ صرف میڈیا استعمال کر رہا ہے جو بالکل غلط ہے۔دلہن یا لڑکی شادی سے کئی سال قبل اسلام قبول کر چکی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دولہا دلہن گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ایک شادی کی ویب سائٹ پر ہی ایک دوسرے کو جان پائے تھے یا انکی ملاقات ہوئی تھی ۔ دلہن کی عمر 24 سال اور دولہا کی عمر 27سال ہے۔ اس لڑنے دیگر 70اور خواہشمند نوجوانوں کے ساتھ اس اشتہار کا جواب دیا تھا جس میں لڑکی نے اس کو پسند کیا تھا اور اس کے بعد دسمبر میں ان کی شادی ہو گئی ۔ تو یہ معاملہ کیسے لو جہاد کا ہوا؟

سوال :مگر کیا ان دونوں کی شادی کو ہائی کورٹ نے منسوخ نہیں کیا تھا؟

سبل:شادی کی منسوخی کی دو پہلی درخواستوں کو عدالت مسترد کر چکی تھی ۔ ان دونوں مرتبہ جج نے اپنے چیمبر میں اس لڑکی سے بات کی تھی اور انہوں نے خود کو مطمئن کیا تھا کہ لڑکی شادی سے خوش ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عدالت کے ریکارڈ میں لڑکی کی اپنے والد کے ساتھ ہوئی بات چیت کی نقل موجود ہے جس میں لڑکی نے اپنے والد سے یہ کہہ کر ساتھ جانے سے انکار کیا تھا کہ گھر پر آر ایس ایس کے لوگ اس سے بات چیت کرنے کے لئے انتظار کر رہے ہوں گے۔ لیکن تیسری مرتبہ میں ہائی کورٹ نے شادی کو غلط قرار دے دیا۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو سپریم کورٹ نے این آئی اے سے آزاد انہ جانچ کرانے کا حکم دے دیا۔

سوال :سپریم کورٹ کا تین طلاق کے مسئلہ کو سننے کی رضامندی پر آپ کی کیا ارائے ہے؟

سبل:یہ عدالت اور چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وہ کیا سننے کا فیصلہ کریں۔ لیکن جب آپ الہ آباد کی تقریب میں وزیر اعظم کی موجودگی میں یہ اعلان کر دیں کے آپ موسم گرما کی چھٹیوں میں کون سے تین معاملے سنیں گے تو لوگ تو کہیں گے ہی کہ کیا یہ اعلان وزیر اعظم کو سنانے کے لئے تھا۔ لیکن اگر آپ ان تینوں معاملوں کی سننے کی بات کریں گے جن کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے تو لوگ اس پر حیرت تو کریں گے ہی کہ کیا یہ محض اتفاق ہے ۔اس کے بعد عدالت بابری مسجد کا معاملہ بھی لے لے اور کہے کہ اس کو معینہ مدت میں ختم کرنا ہے تو لوگوں کا حیران ہونا فطری بات ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے لئے یہ معاملے اتنی فوری نوعیت کے ہیں کہ ان کو چھٹیوں میں سنا جائے۔

سوال : آپ حکومت کے ذریعہ سی بی آئی ، ای ڈی وغیرہ ایجنسیوں کے استعمال کو کیسے دیکھتے ہیں؟

سبل :آپ اس کے استعمال کی یا غلط استعمال کی بات کر رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایجنسیاں حکومت کے لمبے ہاتھوں میں سے ہیں ۔ جب عدالت نے یہ حکم دیا کہ کیرالہ شادی کے معاملہ کی آزادانہ جانچ این آئی اے سے کرائی جائے تو میں نےعدالت سے کہا کہ وہ اس میں ایفیڈیوٹ پیش کر سکتے ہیں جس میں میں ان معاملوں کی لسٹ دوں گاجن معاملوں میں این آئی اے اور سی بی آئی جیسی ایجنسیوں نے گزشتہ تین سالوں میں پوری طرح پلٹی ماری ہے۔

سوال:کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ رجحان کانگریس نے شروع کیا تھا ۔ سی بی آئی کو کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن اور پنجرے میں بند طوطے سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔۔

سبل:میں ان الزامات سے واقف ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ ایسے اکا دکا معاملے ہوں۔ میں نہ نہیں کہوں گا ۔ لیکن موجودہ حکومت نے اس کو ادارہ کی شکل دے دی۔ ان ایجنسیوں کا غلط استعمال ان سب کو نشانہ بنانے کے لئے ہوتا ہے جو حکومت کے لئے خطرہ ہوں۔ ان کو خاموش کیا جاتا ہے یااپنے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے اور ایسے معاملے بھی ہیں ہمارے پاس جہاں ایجنسیوںکو لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ اگر آپ فلاں شخص کے خلاف بیان دے دیں گے تو آپ کو چھوڑ دیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔