کانپور تشدد: پولیس پر یکطرفہ کارروائی کرنے کا الزام! مسلمانوں میں غم و غصہ

شفا نے بتایا کہ ان کے بھائی ساجد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ انہیں کالج سے لینے آ رہا تھا۔ شفا نے کہا ’’ساجد ویڈیو میں نظر نہیں آ رہا، پھر بھی پولیس نے اسے اٹھایا اور ایف آئی آر میں نامزد کر دیا‘‘

کانپور تشدد / یو این آئی
کانپور تشدد / یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: یوپی کے اہم شہر کانپور میں جمعہ کے روز ہونے والے تشدد کے سلسلہ میں پولیس نے 36 افراد کو نامزد کیا ہے اور 24 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ دریں اثنا، مسلمانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کی کارروائی یک طرفہ ہے اور مسلم طبقہ کے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ تشدد کے حقیقی مرتکب افراد آزاد گھوم رہے ہیں۔ پولیس کارروائی سے مسلمانوں میں سخت غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

شہر قاضی عبدالقدوس ہادی نے کہا ’’اگر تشدد ہوا ہے تو اس میں دو فریقین شامل ہیں۔ پولیس نے ایک فریق کے خلاف کارروائی کی ہے جبکہ دوسری طرف کے لوگوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی، جبکہ وہ بھی جرم کے لیے یکساں طور پر ذمہ دار ہے۔‘‘

اپنے دعوے کی حمایت میں انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں نامزد تمام 36 افراد کا تعلق ایک ہی طبقہ سے ہے۔ انہوں نے پوچھا، ’’آخر کیا وجہ ہے کہ دوسرے طبقہ سے وابستہ افراد کے خلاف نہ تو ایف آئی آر درج کی جاتی اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا جاتا؟‘‘


ہادی کا دعویٰ ہے کہ جب وہ کانپور پولیس کمشنر کی کال پر لوگوں کو سمجھانے اور امن برقرار رکھنے کی اپیل کرنے کے لئے گئے تو ان کے اور ان کے بیٹوں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔‘‘ انہوں نے کہا ’’اس بات کو ہر کسی کو سمجھنا ہوگا۔ اس واقعہ کے حق میں ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔ اس کے باوجود پولیس نے میرے ایک معاون کو گرفتار کر لیا۔‘‘

دو بچوں کی ماں ثنا پروین کا دعویٰ ہے کہ ان کے شوہر محمد ناصر تشدد کے مقام سے تقریباً 5 کلومیٹر دور بکرا منڈی میں تھے لیکن انہیں بھی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ان کے کچھ رشتہ داروں کو گرفتار کرنے ہمارے گھر آئی تھی لیکن انہیں تلاش کرنے میں ناکام رہی، اس کے بعد ان کےک شوہر کو لے گئی۔ ثنا کا کہنا ہے کہ اب ان کے شوہر ان 36 ملزمان میں شامل ہیں جنہیں ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے!

ثنا کہتی ہیں ’’ہمارے ایک رشتہ دار نے کرنل گنج پولیس اسٹیشن میں بی جے پی کی ترجمان کے خلاف توہین رسالت کی شکایت درج کرائی تھی۔ میرے شوہر کا اس شکایت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پھر بھی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔‘‘


نرسنگ کی طالبہ شفا انعم نے بتایا کہ ان کے بھائی ساجد حسین کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ انہیں کالج سے لینے آ رہا تھا۔ شفا نے کہا ’’ساجد ویڈیو میں نظر نہیں آ رہا، پھر بھی پولیس نے اسے اٹھایا اور ملزم کے طور پر نامزد کر دیا۔‘‘

ادھر، جوائنٹ کمشنر آف پولیس آنند پرکاش تیواری نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ویڈیو ثبوت کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ملزمان کے خلاف پختہ ثبوتوں کی بنیاد پر مقدمہ دائر کیا جا رہا ہے۔ تمام الزامات کو عدالت میں ثابت کیا جائے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Jun 2022, 11:40 AM