مسلمانوں کی حالت زار منظر عام پر لانے والے راجندر سچر کا انتقال

راجندر سچر کی رپورٹ سے پہلی بار یہ بات منظر عام پر آئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں اور قبائلیوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: انسانی حقوق کے ممتاز علمبردار اور دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کا آج انتقال ہوگیا۔وہ 94 برس کے تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔

صبح تقریباً 11 بجے ایک پرائیویٹ اسپتال میں راجندر سچر نے آخری سانس لی۔ آخری رسومات جمعہ کی شام لودھی روڈ واقع شمشان گھاٹ میں ادا کی جائیں گی۔ یہ اطلاع ان کے کنبے کے ذرائع نے دی ہے۔

جسٹس سچر 22 دسمبر 1923 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا لاہور ہائی کورٹ کے ممتاز فوجداری وکیل تھے۔ جسٹس راجندر سچر 1970 میں دلی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر ہوئے تھے۔ وہ واحد ایسے جج تھے جنہوں نے ایمرجنسی کے دوران حکومت کی ہدایات کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔

وہ اگست 1985 سے دسمبر 1985 تک دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ وہ سوشلسٹ نظریات پر یقین رکھتے تھے اور انسانی حقوق کے پیروکار تھے اور انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق اقوام متحدہ کے کمیشن کے بھی رکن رہ چکے ہیں اور سوشلسٹ پارٹی کے بانی صدر اور اس کی مجلس عاملہ کے سب سے سینئر رکن تھے۔

سچر کمیٹی کے لئے یاد کئے جائیں گے؟

ملک میں مسلمانوں کی سماجی-اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کی معلومات کے لئے یو پی اے حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2005 میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سچر نے 403 صفحات پر مشتمل رپورٹ 30 نومبر 2006 کو لوک سبھا میں پیش کی ۔ جس میں انہوں نے ملک میں مسلم معاشرے کی پسماندگی کے اسباب کا جائزہ لیا اور کئی اہم سفارشیں کیں۔ رجندر سچر کی رپورٹ سے پہلی بار یہ بات منظر عام پر آئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں اور قبائلیوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔

ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہندوستان نے ایک ماہر قانون اور انسانی حقوق کا ایک سچا علمبردار کھو دیا ہے۔ میں جسٹس سچر کو ان کی رہنمائی اور لگن کے لئے ایک دوست کی حیثیت سے انہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ سوشلسٹ پارٹی کے صدر ڈاکٹر پریم سنگھ نے بھی ان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Apr 2018, 3:58 PM