جج لویا کی پراسرار موت پر 10 نئے سوال
’کیراوان‘ میگزین کی تازہ رپورٹ کے مطابق کہ ناگپور کے وی آئی پی گیسٹ ہاؤس سے جج لویا کو اسپتال لے جانے کے پورے معاملے میں وہاں کے ملازمین کو کوئی معلومات ہی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں سی بی آئی کے خصوصی جج بی ایچ لویا کی 2014میں پراسرار حالات میں ہوئی موت کی آزادانہ جانچ کرانے کا معاملہ ابھی چل ہی رہا ہے کہ اس معاملے میں کچھ نئے سوال سامنے آئے ہیں۔ یہ سوال کیراوان میگزین نے اپنی تازہ رپورٹ میں اٹھائے ہیں ۔ اس رپورٹ میں ان حالات کی جانچ کی گئی ہےجن میں جج لویا کی موت ہوئی تھی۔
جس وقت جج لویا کی موت ہوئی اس وقت وہ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کو سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس میں بری کئے جانے کی عرضی پر سنوائی کر رہے تھے۔اس سنوائی کے دوران امت شاہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے جس پر جج لویا نے امت شاہ کے وکیل کوپھٹکار لگاتے ہوئے اگلی سنوائی میں امت شاہ کو حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔
لیکن اس سے پہلے ہی جج لویا کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ناگپور کے روی بھون (گیسٹ ہاؤس) میں ہو گئی تھی ۔ کیراوان میگزین میں اس معاملے کے خلاصہ کے بعد چار ججوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جج لویا کی موت کی وجوہات ایک دم قدرتی تھیں اور اس میں کسی قسم کی سازش اور تنازعہ کے امکانات نہیں ہیں۔ لیکن جج لویا کے رشتہ داروں نے ان کی موت پر شک جتاتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ جج لویا پر بی جے پی صدر امت شاہ کو سہراب الدین معاملے میں بری کرنے کا زبردست دباؤ تھا اور اس کے لئے ان کو 100کروڑ روپے اور ممبئی میں ایک فلیٹ دینے کی رشوت کی بھی پیش کش کی گئی تھی۔
کیراون میگزین نے اپنی تازہ رپورٹ میں روی بھون کے 17ملازمین سے بات چیت کی ہے۔جج لویا کی موت روی بھون میں ہوئی تھی اور جن لوگوں سے کیراوان میگزین کے رپورٹر نے بات کی ہے ان میں روی بھون کے موجودہ اور سابق ملازمین بھی شامل ہیں۔ ان سبھی ملازمین کا دعوی ہے کہ انہیں جج لویا کی موت کی خبر مہینوں بعد تب پتہ چلی جب پہلی مرتبہ اس بارے میں کیراوان میگزین میں خبر شائع ہوئی۔
کیراوان میگزین کی تازہ رپورٹ کے بعد مندر جہ ذیل سوال سامنے آئے:-
۔ تمام 17ملازمین اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ انہیں روی بھون میں ٹھہرے کسی مہمان کی موت کی خبر اخباروں میں آنے سے پہلے کیسے نہیں لگی؟
۔انہوں نے تسلیم کیا کہ اگر جج لویا کو کسی قسم کی تکلیف ہوئی تھی اور انہیںگیسٹ ہاؤس سے اسپتال لے جایا گیا تھا تو انہیں اس کی معلومات ہونا چاہئے تھی۔
۔انہوں نے دعوی کیا کہ اگر کوئی مہمان بیمار ہوتا ہے یا اسے کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ استقبالیہ پر فون کر تا ہے۔ لیکن نہ تو جج لویا نے اور نہ ہی کسی دوسرے جج نے گیسٹ ہاؤس کے استقبالیہ پر کوئی فون کیا۔
۔ یہ ایک دم نا ممکن ہے کہ رات کو استقبالیہ پر جس کی ڈیوٹی تھی یا جن گارڈ کی ڈیوٹی تھی ان کو اس معاملے کی بھنک تک نہ پڑے کہ کسی مہمان کو اسپتال لے جایا گیا ہے۔
۔ ملازمن نے دعوی کیا ہے کہ ایسی حالت میں ایمبو لینس کا انتظام کیا جاتا ہے اور اس کے انتظام میں زیادہ سے زیادہ 15منٹ درکار ہیں۔ لیکن ججوں کا دعوی ہے کہ انہوں نے ناگپور میں تعینات جج باردے کو فون کیا اور پھر وہ ناگپور کے دوسرے سرے پر رہنے والے دوسرے جج راٹھی کو لے کر گیسٹ ہاؤس آئے اور پھر جج لویا کو اسپتال لے جایا گیا۔
۔30نومبر کو گیسٹ ہاؤس میں بہت سارے کمرے خلای پڑے تھے ایسے میں ججوں کے دعوے کے الٹ ایک ہی کمرے(سوٹ نمر 10) میں تین جج کو ٹھہرنے کی کیا ضرورت تھی۔
۔سوٹ نمبر 10روی بھون کی پہلی منزل پر ہے اور استقبالیہ کے ایک دم قریب ہے اور یہیں سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی گاڑی وہاں آئے اور جج لویا سمیت دیگر جج کو لے کر استقبالیہ کو پتہ نہ لگے ی نا ممکن ہے۔
۔ججوں کے دعوے کے پوری طرح الٹ ملازمین کا کہنا ہے کہ گیسٹ ہاؤس ،یں کسی بھی کمرے میں اضافی بستر دینے کا انتظام نہیں ہے ویسے بھی ہر کمرے میں دو بیڈ کا انتظام ہے۔
۔ کیراوان رپورٹر نے جب گیسٹ ہاؤس کی دیکھ ریکھ کرنے والے چیف انجینئر اور سپریٹینڈنگ انجینئر سے پوچاھ کی کہا انہیں جج لویا کو گیسٹ ہاؤس سے اسپتال لے جانے کی مولومات ہے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔