بابری مسجد اراضی کے مقدمہ میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ... شاہد الاسلام

عدالت عظمیٰ نے ایودھیا میں جو پانچ ایکڑ اراضی مسلم فریق کو مسجد کی تعمیر کے لئے دینے کا حکم دیا ہے، اس جگہ کا استعمال ’’قبرستانِ ملت فروشانِ‘‘ کے لئے کیا جاسکتا ہے!

تصویر ڈی ڈبلیو
تصویر ڈی ڈبلیو
user

قومی آواز بیورو

از: شاہدالاسلام

عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آگیا اور بابری مسجد کی اراضی پر مالکانہ حق ثابت کرنے میں مسلم فریق حسب امید ناکام رہ گئے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ مسلم فریق کے لئے یقیناً ’درس عبرت‘ ہے، جو ’ثبوت و شواہد‘ کی رٹ لگاتے ہوئے مصلحتوں سے عاری ہو کر اس ’ قانونی لڑائی ‘ کو ایک ’ہاری ہوئی جنگ‘ کے طور پر لڑ رہے تھے اور دنیا کو یہ پیغام دینے پر آمادہ تھے کہ وہ مظلوم ہیں اور انصاف کے طلبگار بھی۔

اس کے برخلاف اس مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ بابری مسجد کے نیچے کھدائی سے جو ڈھانچے ملے تھے، وہ چونکہ اپنی ہیئت میں اسلامی نہیں تھے، لہٰذا آثار قدیمہ کے ’شواہد‘ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یوں عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ کی طرح آستھا کی بنیاد پر نہیں سنایا گیا بلکہ مذکورہ بالا ’قانونی جواز‘ کو اہم بنیاد مانتے ہوئے پانچ ججوں پر مشتمل اس بنچ نے اپنا یہ دوٹوک فیصلہ سنادیا کہ مندر وہیں بنے گا۔ مسلمانوں کو مسجد کے لئے الگ جگہ دی جائے گی۔

اے ایس آئی کی رپورٹ اس فیصلہ کی اہم بنیادوں میں سے ایک ہے، جس کے حوالہ سے چیف جسٹس آف انڈیا نے واضح کیا کہ ’اے ایس آئی کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ ’متنازعہ زمین‘ پر پہلے مندر ہونے کا ثبوت موجود ہے‘۔ رام للا براجمان کے حق میں اراضی کی ملکیت کا فیصلہ سنانے والے جج صاحبان کے درمیان اس فیصلہ میں کسی طرح کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے، لہٰذا اب سنی وقف بورڈ اور مسلم فریق کا یہ کہنا کہ ’غلط ثبوت‘ عدالت میں پیش کیے گئے، بے معنی اور لاحاصل موقف ہے۔ وہ اس لئے بھی کہ سنی وقف بورڈ جسے ’غلط ثبوت و شواہد‘ کہہ رہا ہے، انصاف کا سب سے بڑا مندر اُسے قابل قبول سمجھ رہا ہے۔

عدات عظمیٰ کے فیصلہ کو اپنے حساب سے ’غلط‘ کہہ کر سنی وقف بورڈ نے بھلے ہی عدم اطمینانی کا اظہار کیا ہے لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کسی فریق کے نامطمئن ہونے سے فرق بھی کیا پڑنے والا ہے؟ جب مسجد کی تعمیر سے لے کر اس کی قفل بندی و شہادت تک کے جملہ واقعات سے عدالت عظمیٰ واقف ہو، اور جب مسجد کی اراضی سے متعلقہ دستاویز عدالت میں ناقابل قبول ثبوت قرار پاجائیں تو پھر اس طرح کی بے اطمینانی کے اظہار کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا کیونکہ عدالت عظمیٰ کے جسٹس گگوئی نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے خود ہی یہ کہا ہے کہ ’زمین کی ملکیت کا فیصلہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا۔ ملکیت کا فیصلہ صرف قانونی بنیادوں پرکیا جاتا ہے‘۔ ظاہر ہے جب عدالت نے ’قانونی بنیاد‘ تلاش کیا اور جب یہ فیصلہ سنا دیا کہ ’متنازعہ مقام پر رام للا کے جنم کے وافر شواہد ہیں اور ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہندوؤں کی آستھا کا معاملہ ہے اور اس پر کوئی تنازعہ نہیں ہے‘ تو پھر کسی طرح کی چیخ و پکار کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔

وہ بھی تب، جب چیف جسٹس آف انڈیا کا یہ ماننا ہوکہ ’ہندو فریق‘ نے باہری حصے پر دعویٰ ثابت کیا‘ اور یہ بھی کہ ’اندرونی حصہ‘ کا مالکانہ حق ثابت کرنے میں مسلمان ناکام رہے تو ظاہر ہے کہ جو فیصلہ آیا، اس سے ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کی رٹ پر قانونی مہر لگ گئی۔ اب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند اور سنی وقف بورڈکی جانب سے ’عدم اطمینانی‘ کا اظہار کرنے اور فیصلہ کو توقعات کے برعکس قرار دینے سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ میں کچھ اہم نکات ایسے ضرور شامل ہیں، جن پر بحث ہوگی اور یقیناً ہو گی، البتہ اس بحث کو لاحاصل یا ’فضول کی بکواس‘ ہی کہاجائے گا کیونکہ جب انصاف کے اعلیٰ ترین مندر کا یہی فیصلہ ہے کہ ’مندر وہیں بنے گا‘ تو پھر فیصلہ کی بنیاد یا جڑ کو ہلانا بدبختی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کا وقت بھی نہیں کہ ’متنازعہ مقام پر رام للا کے جنم کے وافر شواہد‘ آخر کیا ہیں؟ اب یہ دریافت کرنے اور جاننے کی بھی ضرورت نہیں کہ ’مسجد کی اصل جگہ‘ پر بھگوان رام کی پیدائش کے ثبوت کیا ہیں؟ اب یہ استفسار کی بھی گنجائش نہیں کہ اگر مسلم فریق مسجد کے اندرونی حصہ پر اپنا قبضہ ثابت کرنے میں ناکام رہے تو’ہندو فریق‘ نے کن دستاویزی ثبوت و شواہد کو عدالت میں پیش کردیا، جس سے مذکورہ اراضی اُن کی ملکیت میں آگئی؟

ایسے کسی سوال پر بحث سے بچنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اگر اسے طول دینے کی کوشش ہوگی تو یہ معاملہ مزید سیاسی رخ اختیار کرے گا، جس سے مسلم فریق کو کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ بابری مسجد کب بنائی گئی؟ سپریم کورٹ کے مطابق اس کا سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے، مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اب مسلم فریق یہ سوال کر بیٹھے کہ رام اُسی مقام پر پیدا ہوئے جہاں پر مسجد تھی؟ اس کا سائنسی ثبوت کیا ہے؟ کہنے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ عدالت عظمیٰ میں مسلم فریق کے ذریعہ جو بھی شواہد و ثبوت پیش کیے گئے، عدالت عظمیٰ نے انہیں قابل قبول تصور نہیں کیا اور اس کے برخلاف ہندو فریق کے دعووں کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے تسلیم کرلیا۔

سچ تو یہ بھی ہے کہ مسلم فریق کے ذریعہ بابری مسجد کی اراضی پر حق ملکیت کا مقدمہ ایک ہاری ہوئی جنگ کے طور پر لڑا جا رہا تھا۔ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کا سانحۂ عظیم بجائے خود اس معاملہ میں مسلمانوں کی شکست عظیم کا اعلامیہ ہے۔ جو مسلم قیادت اس مسجد کو ہندو جنونیوں کے شر سے بچانے کی قانونی جنگ نہ لڑسکی، اُس مسلم قیادت سے یہ امید کرنے کی کہاں گنجائش تھی کہ اس قانونی لڑائی میں کامیاب ہوکر وہ دوبارہ یہاں مسجد تعمیر کروالے گا؟ اس کے باوجود ہاری ہوئی جنگ کے سپاہیوں کی طرح مسلم فریق نے اس قانونی جنگ کو لڑا اور یہ قانونی لڑائی گویا ایک طرح سے مسلم فریق کے خلاف چلی گئی۔ اگر بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی ہماری ملی قیادت ہوش میں آگئی ہوتی اور مصالحت کا کوئی راستہ تلاش کرلیا گیا ہوتا تو شاید آج جو صورتحال سامنے آئی ہے، وہ نہ آتی۔

کہا جاتا ہے کہ جب جاگو تبھی سویرا، مسلم فریق کیا اب بھی ہوش میں آئے گا یا قانونی لڑائی کی مزید پیچیدگیوں کا سہارا لے گا، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ سنی وقف بورڈ نے جو لائن لی ہے، اس سے یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ مسلم قیادت مزید رسوائیوں کا سفر طے کرے گی۔ سچ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ’’1949 میں بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنا عبادت گاہ کی بے حرمتی کا عمل تھا اور سنہ 1992 میں اسے منہدم کیا جانا قانون کی خلاف ورزی تھی اور یہ بھی کہ 1949 میں مسلمانوں کو مسجد سے بے دخل کیا جانے کا بھی عملِ قانون کے تحت نہیں تھا‘‘ اس کے باوجود اب اس پروپیگنڈہ کو کہ ’مندر توڑ کر ہی مسجد تعمیر کی گئی تھی‘ سچ قرار دیا جائے گا، اس میں بھی کوئی شک نہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ اب مسلم فریق کو کیا کرنا چاہیے؟ ممکن ہے کہ فریقین میں سے چند ایک ایک بار پھر نظر ثانی کے لئے عدالت عظمیٰ میں اپیل داخل کرنے کی حماقت کریں۔ لفظ ’حماقت‘ پر شاید کچھ قائدین بھڑک بھی جائیں، لیکن ہمارا تو یہ ماننا ہے نظرثانی کی اپیل داخل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا البتہ مزید رسوائی ہاتھ آسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کومحترم سمجھا جائے اور اس قضیہ کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا جائے، اسی میں خیر کا پہلو تلاش کیاجانا چاہیے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے بھی نہیں۔

بابری مسجد رام جنم بھومی تناعہ ہندوستانی سیاست کے رخ میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب رہا ہے، یہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔ مسجد میں مورتی رکھنے، متنازعہ مقام پر شیلانیاس کروانے، پوجا کے لئے مسجد کا تالا کھلوانے، کارسیوا کے لئے ہندوؤں کو یہاں جمع ہونے کی دعوت دینے اور پھر مسجد کو شہید کردینے کے واقعات پر ایک نگاہ دوڑانے سے یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قدم قدم پر اس معاملہ میں سیاست ہوئی اور نہ صرف سیاسی جماعتوں نے مسئلہ کا فائدہ حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی، بلکہ ملی قیادت نے بھی جوش میں ہوش کھونے سے لے کر قانونی لڑائی لڑنے تک کے معاملوں میں اپنے ذاتی مفادات کا خاص خیال رکھنے، اپنی اپنی برتری ثابت کرنے اور اپنی اپنی قیادت چمکانے کی بھر پور کوشش کی۔ بابری مسجد کے نام پر انجمنوں کا قیام اور تحریکوں کا تسلسل اسی سلسلے کی اہم کڑی رہی، جس کے بہانے ہماری ملت کے چند قائدین سیاسی میدان میں اپنا قد اونچا کرنے اور اپنے جبہ و دستارکی فضیلت ثابت کرنے میں لگے رہے۔

ملت کی سودا گری سے باز نہ آنے والوں نے اس ایشو پر جذبات کو ہوا دینے اور پھر ’’ملت فروشی‘‘ کا کھیل کھیلنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ یہ موقع اس کا نہیں کہ سانحۂ شہادت بابری مسجد قبل کی ملی قیادت کے جذباتی نعروں کے نقصانات گنوائے جائیں یا شہادت بابری مسجد کے المیہ کے بعد اس کے ملبے پر سیاست کرنے والی ملی قیادت کی بداعمالیوں کا شکوہ کیا جائے کہ یہ فسانہ بڑا طولانی ہے۔ بابری مسجد کے تعلق سے رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات اور خون خرابے میں ہونے والے جانی ومالی نقصانات اور فسادات کی ایک لمبی کہانی رہی ہے، جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ بس یہی کہا جاسکتا ہے اب جبکہ عدالت کے پانچ ججوں کا متفقہ طور پر فیصلہ آچکا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو در گزر کریں اور معاملہ اللہ کے سپرد کردیں کہ اسی میں خیر ممکن ہے۔ جو کچھ کیا جاسکتا تھا، کیا گیا، ملت کے کچھ ہوش مندوں نے آخری وقت میں کچھ اچھے اور بہترین ماہرین قانون کی مدد سے اس لڑائی کو لڑنے کی کوشش ضرور کی تاہم جب عدالت میں وہ اپنی دلیلوں کو مضبوطی سے نہ رکھ سکے یا عدالت ان کے ذریعہ پیش کردہ ثبوتوں کو قابل عمل قبول نہ کرسکی تو ہم اسے مسلم فریق کی بڑی ناکامی سمجھتے ہیں، اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔

یہ فیصلہ ’ملت کے نام نہاد قومی ٹھیکیداروں‘ کے ضمیر کو کہاں تک کچوکے لگائے یا نہیں، یہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ایودھیا میں جو پانچ ایکڑ اراضی مسلم فریق کو مسجد کی تعمیر کے لئے دینے کا حکم دیا ہے، اس جگہ کا استعمال ’’قبرستانِ ملت فروشانِ‘‘ کے لئے کیا جاسکتا ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔