جوشی مٹھ بحران: شہر کے غرق ہونے کی رفتار میں تیزی سے اضافہ، خوفزہ مکینوں کے انخلا کا سلسلہ جاری
زمین کے دھنسنے اور مکانوں میں پڑی دراڑوں سے خوفزدہ افراد نمناک آنکھوں سے اپنے آشیانوں سے منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔ متاثرہ افراد میں سے کچھ اپنے رشتہ داروں کے یہاں جبکہ کچھ راحتی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
دہرادون: جوشی مٹھ میں بڑے پیمانے پر مکانات اور دیگر تعمیرات میں دراڑیں پڑنے اور زمین کے دھنسنے کے درمیان شہر پر وجود کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ شہر کے ایک بڑے حصہ کے غرق ہونے کا سلسلہ وقت کے ساتھ تیز ہوتا جا رہا ہے اور اس پر تحقیق بھی کی جا رہی ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 دنوں میں زمین کے دھسنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ دریں اثنا، غیر محفوظ قرار دیئے گئے دو ہوٹلوں کو گرانے اور متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔ خوفزدہ لوگ نم آنکھوں کے ساتھ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے چلے گئے ہیں، جبکہ کئی متاثرہ افراد عارضی ریلیف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : جالندھر میں آرام کے دوران ہاکی کھیلیں گے راہل گاندھی
گزشتہ روز ریاستی کابینہ نے متاثرہ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کئی فیصلے بھی لیے، جن میں ان کے مکانات کے کرایے کی رقم بڑھا کر 5000 روپے ماہانہ کرنا، ان کے بجلی اور پانی کے بل چھ ماہ کے لیے معاف کرنا اور بینکوں کی جانب سے قرضوں کی وصولی ایک سال کے لیے ملتوی کر دینا شامل ہیں۔
دریں اثنا، چمولی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ جمعہ کو جوشی مٹھ کے مزید 25 خاندانوں کو عارضی ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ ان کیمپوں میں متاثرین کو سردی سے بچانے کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ متاثرین کے لیے کمبل کے ساتھ اناج کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ جن عمارتوں میں دراڑیں پڑی ہیں ان کی تعداد فی الحال 760 ہے اور ان میں سے 147 کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔
وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ اب تک جوشی مٹھ کے 90 خاندانوں کو 'منتقل' کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ فی الحال کسی کا گھر نہیں گرایا جا رہا ہے اور ضرورت کے مطابق ہی خالی کرایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ جوشی مٹھ میں سروے ٹیمیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے، دھامی نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کو 1.5 لاکھ روپے کی عبوری امداد دی جا رہی ہے اور اس کی تقسیم بھی جمعرات سے شروع ہو گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔