سیبی کے 500 سے زائد ملازمین کا مشترکہ خط، اعلیٰ افسران پر توہین کرنے کا الزام
سیبی کے 500 سے زیادہ ملازمین نے ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیبی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کی طرف سے دفتری میٹنگوں کے دوران ’چیخنا، ڈانٹنا اور سرِ عام تذلیل کرنا‘ ایک معمول بن گیا ہے
سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی)کے ملازمین نے مرکزی حکومت کو ایک خط لکھا ہے ، جس میں ادارے میں کام کے انتہائی خراب ماحول کی شکایت کی گئی ہے۔ انگریزی کاروباری اخبار دی اکنامک ٹائمز نے اس خبر کو اپنے صفحہ اول پر نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ خبر کے مطابق، سیبی کے 500 سے زائد ملازمین نے ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیبی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کی طرف سے دفتری میٹنگز کے دورا ’چیخنا، ڈانٹنا اور سرعام تذلیل کرنا‘ ایک عام سی بات بن گئی ہے۔
اکنامک ٹائمز کے مطابق یہ خط 6 اگست کو لکھا گیا تھا تاہم اس حوالے سے کیا کارروائی ہوئی یا نہیں کی گئی یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سیبی نے صرف اتنا کہا ہے کہ ملازمین سے لگاتار مکالمہ کرنا اور ان سے متعلقہ مسائل کو حل کرنا ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے اور یہ مسئلہ حل بھی ہو گیا ہے۔
وزارت خزانہ کو لکھے گئے پانچ صفحات کے خط میں، سیبی کے گروپ ’اے‘ کے آدھے سے زیادہ افسران، جن کی تعداد تقریباً 500 ہے، نے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں کام کے حالات خراب ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ’’پچھلے 2-3 سالوں کے دوران (مادھبی پوری بچ پہلی خاتون ہیں اور نجی شعبے کی پہلی شخصیت ہیں جنہیں 2018 سے کل وقتی بورڈ ممبر رہنے کے بعد 2022 میں چیئرپرسن مقرر کیا گیا ہے)، اعلی عہدوں فائز افسران کی جانب سے چیخنا چلانا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور سرعام تذلیل کرنا عام بات ہو گئی ہے۔ ‘‘ خط کے مطابق اس سب کی وجہ سے ملازمین کی نفسیاتی صحت متاثر ہو رہی ہے۔
خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ پہلے اس طرح کے کئی کیسز آفس کے مینٹل ہیلتھ کنسلٹنٹ کے پاس آتے تھے لیکن اب ایسے کیسز کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اکنامک ٹائمز نے اس کی طرف سے دیکھے گئے خط کا حوالہ دیا ہے، جس میں ملازمین نے کہا ہے کہ بغیر دلیل کے ہدف تبدیل کرنا اور غیر حقیقی کام کا بوجھ بڑھانا لوگوں کو ہراساں کرنے کا ایک طریقہ بن گیا ہے۔
خیال رہے کہ ملازمین کی ناراضگی کی خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سیبی کی چیئرپرسن مادھبی پوری بچ پر مختلف الزامات لگائے گئے ہیں۔ دو دن پہلے کانگریس نے ان پر الزام لگایا تھا اور سوال اٹھایا تھا کہ آئی سی آئی سی آئی بینک کس بنیاد پر مادھبی پوری بوچ کو پیسے دے رہا ہے۔ مادھبی پوری بچ نے 2017 میں سیبی میں شامل ہونے سے پہلے آئی سی آئی سی آئی بینک میں کام کیا تھا۔
اس سے قبل امریکی تنظیم ہنڈن برگ ریسرچ نے بھی انکشاف کیا تھا کہ مادھبی پوری بچ اور ان کے شوہر دھول بچ کے آف شور فنڈز میں حصہ داری تھی جس نے مبینہ طور پر اڈانی گروپ کے شیئرز کو بڑھانے میں مدد کی تھی۔ اس معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے کئی اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ آئی سی آئی سی آئی بینک، آئی سی آئی سی آئی پروڈنشل اور کمپنی سے مادھبی پوری بچ کو اس وقت تک بھی ادائیگی کی گئی جب وہ سیبی میں کام کرنا شروع کر چکی تھیں۔
کانگریس نے دعویٰ کیا کہ مادھبی پوری بک نے 2017 اور 2024 کے درمیان آئی سی آئی سی آئی بینک سے رقم وصول کی تھی اور ان کے ٹی ڈی ایس کی بھی ادائیگی کی گئی۔ کھیڑا نے کہا کہ مادھبی پوری کو 2021-22 میں آئی سی آئی سی آئی پراڈینشل سے 2.17 لاکھ روپے اور 2.66 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔
ان الزامات کے بعد آئی سی آئی سی آئی بینک نے ایک وضاحت جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مادھبی پوری بچ کو ادائیگی ان کے ریٹائرمنٹ کے فائدے کے طور پر کی گئی تھی نہ کہ تنخواہ کے طور پر۔
بینک کی اس وضاحت پر بھی کانگریس پارٹی نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ کچھ واضح نہیں ہوتا ہے۔ کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے کہا، ’’کون سا کام ہے جہاں تنخواہ سے زیادہ پنشن ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے کل (پیر) کے انکشافات میں نریندر مودی، مادھبی پوری بچ اور آئی سی آئی سی آئی بینک سے سوالات کیے تھے۔ اب شطرنج کے اس کھیل کے ایک پیادے یعنی آئی سی آئی سی آئی بینک نے انکشافات کا جواب دیا ہے۔ جب مادھبی پوری بچ آئی سی آئی سی آئی سے ریٹائر ہوئیں تو انہیں 2013-14 میں 71.90 لاکھ روپے کی گریجویٹی ملی۔
خیال رہے کہ ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ کے بعد سیبی کی سربراہ مادھبی پوری بچ اور ان کے شوہر نے کہا تھا کہ امریکی کمپنی سیبی کی ساکھ اور کردار کو پامال کرنے کا کام کر رہی ہے۔ ایک تفصیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ بچ خاندان کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری ان فنڈز میں تھی جو سنگاپور میں مقیم ایک شہری کے ذریعے چلائی گئی تھی اور یہ مادھبی پوری بچ کے سیبی میں شمولیت سے قبل کی گئی تھیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔