جے این یو تشدد: طالب علم غنڈوں کے خوف سے بالٹی سر پر ڈھک کر بیٹھ گیا، سنائی مکمل روداد
سال 2020 میں اگر کوئی طالب علم اتنا خوفزدہ ہو کہ وہ خود کو بچانے کے لئے اپنےہی ہاسٹل کے کمرے میں سر پر بالٹی رکھنے کو مجبور ہو جائے تو یہ ہماری ترقی اور ہمارے تعلیمی نظام پر سوال کھڑے کر تا ہے۔
جامعہ میں پولیس کی بربریت کو ابھی تین ہفتہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ اے بی وی پی کے تقریبا 100 نقاب پوش غنڈوں نے ’بھارت ماتا کی جے ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے لاٹھی، راڈ، ہتھوڑوں اور پتھر وں سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء و پروفیسرس پر حملہ کر دیا جس میں پروفیسر سمیت 20 سے زیادہ لوگ شدید زخمی ہو گئے۔ یہ تمام زخمی ایمس کے ٹراما سینٹر میں زیر علاج تھے۔ ان زخمیوں میں جے این یو طلباء یونین کی صدر آئشی گھوش، پروفیسر سچترا سین اور اسسٹنٹ پروفیسر امت پرماسیواران شامل ہیں۔
زیادہ تر طلبااگلے سیمسٹر کے رجسٹریشن کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور اس کے رجسٹریشن کا آخری دن گزشتہ کل یعنی اتوار کوتھا، اور بہت سے طلباء نےحال ہی میں اختتام پذیر سیمسٹر امتحانات نہیں دئے تھے۔ ان امتحانات کے لئے جے این یو کے وائس چانسلر جگدیش کمار نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ طلباء اپنی جوابی کاپی وہاٹس ایپ پر یا امیج کی شکل میں اپنے پروفیسر حضرات کو بھیج سکتے ہیں۔
جے این یو کے ایک طالب علم نے بتایا کہ ’’کل ہنگامہ شام ساڑھے چار بجے پیریار ہاسٹل کے قریب ہوا جہاں بڑی تعداد میں اے بی وی پی کے غنڈے جمع ہو گئے تھے۔ اتوار ہونے کی وجہ سے زیادہ لوگوں کا اس جانب دھیان نہیں گیا لیکن جب یہ خبر پھیلی تو پروفیسر حضرات نے وہاں پہنچنے کی کوشش کی۔ اے بی وی پی کے نقاب پوش غنڈے سابر متی کے ٹی پوائنٹ پر شام 6.30 بجے پہنچ گئے تھے اور وہاں پہنچ کر انہوں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ انہوں نے وہاں پتھر بازی شروع کر دی اور جیسے وہاں لوگ پہنچے تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ اس دوران دہلی پولیس تماش بین کی طرح غنڈوں کو طلبا ء کی پٹائی کرتی دیکھتی رہی۔‘‘
اس کے فوراً بعد ’فرینڈس فار آر ایس ایس ‘ نامی وہاٹس ایپ گروپ میں پر تشدد حملہ کے منصوبہ کی بات چیت آن لائن شیئر کی گئی۔ خبر یہ بھی ہے کہ اس وہاٹس ایپ گروپ میں جے این یو کے ایک ٹیچر بھی رکن ہیں۔ایک طالب علم نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’پیریار ہاسٹل کے قریب حملہ ہوا اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارے وارڈن نے ان لڑکوں کو پناہ دی ہوئی تھی۔ آئی اے این ایس کے ایک رپورٹر کی بھی غنڈوں نے پٹائی کی۔ وہ پولیس کے پاس شکایت کرنے گیا لیکن اس کو سیکورٹی فراہم کرنے کے بجائے اس کو وہاں سے دھکیل دیا گیا۔ اس کے بعد غنڈے سابر متی ہاسٹل کی جانب بڑھے۔ انہوں نے ہاسٹل میں داخل ہونے کے بعد دروازہ اور کھڑکیوں کے شیشے توڑ دئے۔‘‘ اس بھیڑ کا نشانہ طلباء یونین کی صدر آئشی گھوش تھیں۔ ایک چشم دید نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئشی کے گرنے کے باوجود بھیڑ نے اس پر حملہ جاری رکھا۔
ہریانہ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے بتایا کہ سابرمتی ہاسٹل پر بھیڑ نے ان کمروں کو خاص طور سے نشانہ بنایا جس میں کشمیری اور دلت طلباء تھے۔ جس کمرہ کے دروازہ کے باہر اگر قومی پرچم تھا یا کچھ بھگوا تھا تو اس بھیڑ نے اس کو نہیں چھوا۔ اس نے بتایا کہ جبکہ اس کاجھکاؤ بائیں محاذ کی جانب ہے لیکن اس نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ ا س بھیڑ نے اسے چھوڑ دیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس بھیڑ کے ساتھ وہاں کے طلباء بھی تھے کیونکہ ان کے بغیر ان کو کیسے پتہ لگتا میرے بارے میں۔ کشمیری اور دلت طلباء کے کمروں میں جم کر توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ یہ کمرے بند تھے کیونکہ اتوار ہونے کی وجہ سے یہ طلباء پروفیسرس سے ملنے گئے تھے۔
ایک اور طالب علم نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ جیسے ہی ہنگامہ کی آواز آئی ہم نے اپنے کمرے کی لائٹ بند کر دیں۔ کچھ اپنے کمروں میں واپس گئے اور اندر سے تالا لگا لیا۔ غنڈوں نے ان کمروں کو نقصان نہیں پہنچایا جن کے باہر تالے لگے ہوئے تھے۔ میرا کمرہ پہلی منزل پر ہے، انہوں نے میرے کمرے پر ہتھوڑوں سے حملہ کیا۔ میں اپنے کمرے میں چھپا ہوا تھا اور بالٹی سے سر کو ڈھکا ہوا تھا تاکہ مجھے کوئی زخم نہ پہنچے۔ ہمارے پاس خود کو بچانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ گزشتہ تین دنوں سے کیمپس میں وائی فائی سہولت نہیں تھی اور کیونکہ موبائل سگنل بھی کم تھے اس لئے کسی سے بات بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔‘‘
واضح رہے کہ طلباء اور جے این یو کے وائس چانسلر کے درمیان فیس کے اضافہ کو لے کر تنازعہ چل رہا تھا جس کی وجہ سے کیمپس میں تناؤ بڑھ رہا تھا۔ 4 اور 5 جنوری کو اے بی وی پی اور بائیں محاذ کے ارکان نے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے الزام بھی لگائے تھے۔ اس سارے معاملہ میں پولیس اور جے این یو انتظامیہ پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔