گراؤنڈ رپورٹ: جھارکھنڈ میں خوف، بھوک و بدعنوانی کا اثر، مودی حکومت کے خلاف غصہ کی لہر

رانچی میں جب جہاز اترنے لگتا ہے تو کچی سڑکیں، خشک زمین اور اکا دکا پکے مکان نظر آتے ہیں۔ ایئر پورٹ میں انتخابات کی یہی تصویر بنتی ہے لیکن باہر آتے ہی اور بھی بہت کچھ محسوس ہونے لگتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

کئی آٹو -ٹیکسی والے ملیں گے جو کہیں گے، ’’رانچی میں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ پکی سڑکیں ہیں، غریبوں کو مکان فراہم کئے گئے ہیں۔ نوکری ملی ہے، پانی ملا ہے۔ انہیں تو یہی سب چاہئے اور یہ سب بی جے پی حکومت نے ہی کیا ہے۔ ‘‘ یہ سب سن کر آپ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کیا واقعی یہی حقیقت ہے؟

بہار میں تو لوگ اپنی سیاسی رائے کھل کر پیش کرتے ہیں لیکن جھار کھنڈ میں ایسا نظر نہیں آتا۔ در اصل یہاں شہری اور دیہاتی کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ لوگوں میں خوف ہے کہ اگر وہ بی جے پی کے خلاف بولیں گے تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے یا کسی فرضی مقدمہ میں پھنسایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بدعنوانی، تحویل اراضی (لینڈ ایکویزیشن)قانون، کرایہ داری قانون اور تمام دوسرے ایشوز پر بھی وہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

جھارکھنڈ کی حالت کو رانچی کے صحافی دیویندر واضح الفاظ میں سمجھتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ خوف، بھوک اور بدعنوانی ہی یہاں اہم ایشوز ہیں۔ شہروں میں لوگوں کے پاس نوکری ہو سکتی ہے لیکن گاؤں کے لوگوں کے پاس ذریعہ معاش ہی نہیں ہے۔ کام کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔ کئی اضلاع میں کھیتی بھی ٹھپ ہو گئی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’تمام وعدوں کے باوجود حکومت آبپاشی کا نظام تیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب کام نہیں ہوگا، کھیتی نہیں ہوگی تو غریب کیا کرے گا! بچوں کی پرورش کس طرح کرے گا! سرکاری راشن سے بھی کافی لوگ محروم ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس آدھار نہیں ہے اور جن کے پاس ہے تو بایومیٹرک سسٹم سے ان کی شناخت نہیں ہو پاتی۔ ‘‘


دیویندر نے مزید بتایا کہ پانی کے عظیم بحران سے پوری ریاست دو چار ہے، یہاں تک کہ شہروں میں بھی بعض اوقات ہی پانی فراہم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پانی کو جمع کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ حکومت نے آبی ذخائر کی کچھ اکائیاں تعمیر کی تھیں لیکن مٹیریل اتنا گھٹیا استعمال کیا گیا کہ وہ بھربھرا کر گر پڑیں۔‘‘ دیویندر کے مطابق نظام تعلیم کا معیار بھی گر رہا ہے۔ مدت طویل سے اساتذہ اپنے مطالبات کے حق میں تحریک چلانے پر مجبور ہیں۔

واضح رہے کہ جھارکھنڈ کے تمام 24 اضلاع کسی نہ کسی طور نکسلزم سے متاثر ہیں۔ ایک دیگر ماہر انتخابنے کہا، ’’اگر گاؤں والے نکسلیوں کو تعاون نہیں کریں گے تو وہ گاؤں میں نہیں رہ پائیں گے اور اگر تعاون دیتے ہیں تو پولس پریشان کرتی ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ 2023 تک جھارکھنڈ سے نکسلزم کو ختم کر دیا جائے گا لیکن اس کا الٹا اثر ہوا اور ریاست میں نکلسیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔

شہروں کا انتخابی ماحول بی جے پی کے حق میں نظر آتا ہے لیکن جوں ہی آپ شہر سے باہر نکلتے ہیں تصویر تبدیل ہو جاتی ہے۔ دراصل لوگوں میں اندر ہی اندر غصہ پایا جا رہا ہے۔ سابق صحافی اشوک ورما نے کہا ’’شہروں میں یو پی ، بہار ، بنگال اور دیگر ریاستوں سے آنے والے لوگ قیام پزین ہیں جن میں سے زیادہ تر کو غیر تبدیل ماحول میں رہنا ہی پسند ہوتا ہے ۔ ان میں سے کئی بی جے پی حامی کافی مشتعل بھی ہیں، ایسے لوگ انتخابات میں اپنی رائے سامنے والے کو دیکھ کر ہی دیتے ہیں۔‘‘


لیکن رانچی کےایک چھوٹے سے ہوٹل میں کام کرنے والے سشیل کا نظریہ الگ ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں، ’’حقوق اراضی کی بات کیوں نہیں کی جا رہی ہے، آدیواسیوں کا ذکر نہیں ہو رہا، موب لنچنگ پر بھی آج کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔‘‘

لوگوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ جھارکھنڈ میں مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے خلاف اندر ہی اندر لہر چل رہی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن فیصل انوراگ بتاتے ہیں کہ سرکاری ملازمین میں حکومت کے تئیں غصہ ہے۔ یہ سب کبھی مودی کے حامی ہوا کرتے تھے لیکن بی ایس این ایل کی حالت خراب ہونے کے بعد یہ فکر مند ہو گئے۔ بینک ملازمین ہوں یا سیل (اسٹیل اتھارٹی) کے ملازمین ، سبھی کے دلوں میں خدشات ہیں کہ ان کا بھی حا ل کہیں بی ایس این ایل والا نہ ہو جائے ۔

اس کے علاوہ جھارکھنڈ کے آدیواسیوں، کمہار، کہار، بڑھئی، دھنوک وغیرہ او بی سی طبقات کے اندر بھی غصہ پایا جا رہا ہے۔ مقتدر جماعت کے خلاف مسلمانوں اور عیسائیوں کی ناراضگی تو جگ ظاہر ہے۔ جھارکھنڈ میں گزشتہ سالوں میں کم از کم 17 موب لنچنگ کے واقعات پیش آئے اور ان میں 11 لوگوں کی جان چلی گئی۔ ہلاک شدگان میں 9 مسلمان اور دو آدی واسی شامل تھے۔ ایسے میں یہ کامل امکان ہے کہ یہ تمام طبقات بی جے پی کے خلاف ہی ووٹ کریں گے۔

ایک اور بات جھارکھنڈ میں نظر آتی ہے اور وہ ہے قیادت کا مسئلہ۔ این ڈی اے کو صرف مودی کے چہرے پر ہی بھروسہ ہے کیونکہ ریاست کی ر گھوبرداس حکومت کے تئیں لوگوں میں سخت ناراضگی پائی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Apr 2019, 7:10 PM