موب لنچنگ: امتیاز اور مظلوم کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں

مظلوم انصاری اور امتیاز خان کے قتل اور ملزمین کو بچانے کی پولس انتظامیہ کی کوششوں پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ کا دہلی کے پریس کلب میں اجراء

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

قومی آواز بیورو

جھارکھنڈ کے لاتیہار میں 18 مارچ 2016 کو گئو رکشکوں کے ذریعہ جن دو مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکا کر موت کی نیند سلا دیا گیا تھا، وہ معاملہ دو سال گزر جانے کے باوجود انصاف طلب ہے۔ اس حادثہ پر مبنی آج دہلی کے پریس کلب میں ایک ’آزادانہ تحقیقی رپورٹ‘ (انڈیپنڈینٹ انوسٹی گیشن) کا اجراء ہوا جس میں پھانسی پر لٹکائے گئے مظلوم انصاری اور امتیاز خان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ کئی وکلاء، صحافی اور معزز حضرات موجود تھے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح گئو رکشکوں اور غنڈہ صفت لوگوں کو بچانے کے لیے ریاستی حکومت اور پولس انتظامیہ نے کیس کمزور کیا۔ مقتول کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ اس سارے معاملے کا سرغنہ ونود پرجاپتی کے خلاف پولس نے نہ کوئی چارج شیٹ داخل کی اور نہ ہی کوئی کارروائی کی۔

مظلوم انصاری اور امتیاز خان کے گھر والوں کو انصاف دلانے کے لیے کیس لڑ رہے عبدالسلام ایڈووکیٹ نے اس موقع پر بتایا کہ کس طرح پولس نے ظالموں کو بچانے کے لیے کیس کو کمزور کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’فاسٹ ٹریک عدالت میں اس کیس کو جس رفتار کے ساتھ چلنا چاہیے تھا نہیں چلایا گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو سال میں صرف 6 گواہوں کو سنا گیا۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’اس پورے معاملے کا سرغنہ ونود پرجاپتی تھا جس کے خلاف پولس نے نہ ہی چارج شیٹ داخل کی اور نہ ہی اس کی گرفتاری عمل میں۔ جن دیگر ملزمین کو گرفتاری کیا گیا انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کس طرح انھوں نے بچوں کے ساتھ ظلم کیا۔ انھوں نے اغوا کرنے اور قتل کرنے کی بات بھی قبول کی، اس کے باوجود ان پر نہ ہی کڈنیپنگ کا سیکشن لگایا گیا اور نہ ہی قتل کا سیکشن لگایا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پولس نے ملزمین کی ہی مدد کی۔‘‘

جھارکھنڈ میں ہوئے اس موب لنچنگ کے چشم دید گواہ مظلوم انصاری کا چھوٹا بھائی منصور انصاری، اس کی بیوی سائرہ بی بی اور امتیاز خان کے والد آزاد خان، والدہ نجمہ بی بی نے تقریب میں 18 مارچ 2016 کو ہوئے واقعات اور اس سے قبل مظلوم انصاری کو ملی دھمکی کے بارے میں بتایا۔ ان سبھی موب لنچنگ واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مظلوم انصاری اور امتیاز خان 8 بیلوں کے ساتھ میلہ کے لیے نکلے تھے لیکن راستے میں ہی ارون ساؤ، بنٹی ساؤ، وشال تیواری، ونود پرجاپتی اور دیگر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے لوگوں نے اغوا کر لیا اور پھر جنگل میں لے جا کر اس کی خوب پٹائی کی۔ بعد میں دونوں کو درخت سے لٹکا کر پھانسی دی گئی، اور پھر بھی وہ نہیں مرے تو ان کا پیر پکڑ کر گئورکشک لٹک گئے جس سے ان کی موت ہو گئی۔ یہ پورا معاملہ منصور انصاری اور آزاد خان کی آنکھوں کے سامنے ہوا جو مظلوم اور امتیاز کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ پولس میں جب اس پورے معاملہ کی تفصیل بتائی گئی اور کہا گیا کہ سبھی اس گاؤں کے لوگ ہی تھے تو ایس پی، ڈی ایس پی سب نے کہا کہ انصاف بھی ملے گا، معاوضہ بھی ملے گا اور ملازمت بھی دلائیں گے۔ لیکن ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ جن ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا انھیں ضمانت بھی مل گئی۔ منصور انصاری نے غمگین انداز میں بتایا کہ انھوں نے پولس والوں کو جو بیان دیا تھا چارج شیٹ میں اس کو بھی الٹ دیا گیا۔

جھارکھنڈ موب لنچنگ معاملے میں قصورواروں کو سزا نہ ملنے اور مہلوک بچوں کے اہل خانہ کو انصاف کے لیے در در بھٹکتے دیکھ کر سینئر ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ اس کیس میں کئی چشم دید گواہ ہیں لیکن ابھی تک انصاف نہیں ملنا بی جے پی حکمراں ریاستوں میں عدالتی نظام پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’سارے ملزم ضمانت پر ہیں اور اس کا جو ’رنگ لیڈر‘ تھا یعنی ونود پرجاپتی، اس کو تو آج تک نہ ہی گرفتار کیا گیا اور نہ ہی چارج شیٹ داخل ہوا۔ اس طرح کا معاملہ قانون کے لیے بہت ہی بڑا خطرہ ہے، سول سوسائٹی کے لیے بڑا خطرہ ہے کیونکہ غنڈوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہو رہی ہے۔‘‘

ملک میں گئو رکشا کے نام پر ہو رہے قتل کے بارے میں سینئر ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے بتایا کہ ’’گئو رکشک ملک میں ایک گینگ کی طرح کام کر رہے ہیں، کئی ریاستوں میں باضابطہ انھیں شناختی کارڈ ملا ہوا ہے۔ پولس ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ ایسے ماحول میں ہم لوگوں کو ہی آگے آ کر اس جنگ کو لڑنا ہوگا۔‘‘ بی جے پی حکومت میں قصورواروں کے بلند ہوتے حوصلے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’’اتر پردیش میں ہسٹری شیٹر، جس کے خلاف کتنے جرائم کے سنگین کیسز لگے ہوئے ہیں، وہ کھلے عام یہ کہتا ہے کہ ہم تو قانون میں یقین ہی نہیں کرتے۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ہندوستان میں کوئی قانون اور کوئی تہذیب نہیں بچے گا۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے کہ کئی جرائم سب کے سامنے ہو رہے ہیں، کئی کے ویڈیو بنے ہوئے ہیں لیکن اس کو ضمانت مل جاتی ہے۔ عدالت سے ملی ضمانت کو چیلنج نہیں کیا جاتا۔ غور کرنے والی بات ہے کہ ہائی کورٹ سے ضمانت مل جاتی ہے تو سپریم کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں جاتا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پولس ایسا نہیں چاہتی۔‘‘ پرشانت بھوشن نے یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی ایک غنڈہ قرار دیا اور کہا کہ ’’جب ایڈمنسٹریشن ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے جو یوگی جیسے چھٹے ہوئے غنڈے ہیں، ہسٹری شیٹر وزیر اعلیٰ بن جائیں اور جب کوئی پولس والا ان کی بات نہیں مانتا تو اس کو وہاں سے ہٹا دیں اور اپنے لوگوں کو وہاں بٹھا دیں، تو انصاف کسے مل سکتا۔‘‘ انھوں نے بی جے پی کو براہ راست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’گئو رکشکوں کو پورا تحفظ بی جے پی والوں نے دے رکھا ہے، ضمانت یہی دلاتے ہیں اور ان کے لیے وکیل بھی یہی لوگے دیتے ہیں۔‘‘

سینئر صحافی پرنجوئے گوہا نے رپورٹ کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس رپورٹ کو دیکھ کر مجھے اس قدر شرم محسوس ہوئی کہ میں بتا نہیں سکتا۔ اس ملک میں جو بربریت ہے وہ اس رپورٹ میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دو سال کے بعد مہلوک کے گھر والے انصاف مانگنے لاتیہار سے دہلی آ رہے ہیں تو یہ سوچنے کا مقام ہے۔ یہ رپورٹ ثابت کر رہی ہے کہ پولس اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہی ہے اور وہاں کے لیڈران غلط لوگوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ سماجی کارکن بناجیوتسنا لاہیری نے بھی رپورٹ کی تعریف کی اور کہا کہ ’’یہ ایک تحقیقاتی رپورٹ ہے اس لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ حالانکہ اس طرح کے واقعات اور ایک ہی طریقے سے کیے گئے قتل اب عام ہو گئے ہیں لیکن مظلوم انصاری اور امتیاز کا کیس حیران کر دینے والا ہے۔ اس میں اتنی ساری سچائیاں جو سامنے آئی ہیں اس کو ہمیں آگے لے کر جانا چاہیے۔ پولس اور انتظامیہ پر اب قطعی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔