تبریز کا قتل اِس سال موب لنچنگ کا 11واں معاملہ، اقلیتی طبقہ زیادہ بنے نشانہ

ایک اعداد و شمار کے مطابق سال 2015 کے بعد سے گئوکشی اور چوری کے سبب ہجومی تشدد کے 121 واقعات ہوئے ہیں جب کہ 2012 سے 2014 میں ایسے محض 6 واقعات ہوئے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کا نشانہ بنے تبریز کی موت اس سال کا ایسا پہلا معاملہ نہیں ہے۔ ویب سائٹ فیکٹ چیکر ڈاٹ اِن کے ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نفرت جرم کا ایسا گیارہواں معاملہ ہے۔ اس سال ہجومی تشدد میں چار لوگوں کی موت ہو گئی ہے جب کہ 22 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہندوستان میں جرائم پر مبنی نفرت کے 297 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں 98 لوگوں کی موت ہوئی اور 722 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

ویب سائٹ فیکٹ چیکر ڈاٹ اِن کے ذریعہ پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق حال کے سالوں میں ہجومی تشدد کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ سال 2015 کے بعد سے گئوکشی اور چوری کے سبب ہجومی تشدد کے 121 واقعات ہوئے ہیں جب کہ 2012 سے 2014 میں ایسے محض 6 واقعات ہوئے تھے۔ 2009 سے 2019 کے ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 59 متاثرہ شخص مسلم تھے اور 28 فیصد واقعات مبینہ مویشی چوری یا قتل سے متعلق تھے۔ ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 66 فیصد واقعات بی جے پی حکمراں ریاستوں میں ہوئے اور 16 فیصد واقعات کانگریس حکمراں ریاستوں میں ہوئے۔


واضح رہے کہ جھارکھنڈ کے کھرساواں ضلع میں منگل کے روز تبریز کے ساتھ چوری کے شک میں مار پیٹ کی گئی۔ اسے کھمبے سے باندھا گیا اور پولس کے حوالے کرنے سے پہلے بھیڑ نے کئی گھنٹوں تک اسے پیٹا۔ اس واقعہ کا ویڈیو بھی سامنے آیا جس میں نظر آ رہا ہے کہ تبریز کو بار بار ’جے شری رام‘ اور ’جے ہنومان‘ بولنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

اس معاملے میں پولس کا کہنا ہے کہ ہفتہ کے روز تبریز کی موت اسپتال میں علاج کے دوران ہو گئی۔ اس حملے کی پورے ملک میں مذمت کی گئی۔ معاملے میں 11 لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا اور دو پولس اہلکاروں کو معطل بھی کر دیا گیا۔ تبریز کی فیملی نے پولس، ڈاکٹر سمیت جرائم میں شامل سبھی لوگں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دراصل تبریز کی فیملی کا کہنا ہے کہ ان کے کئی بار گزارش کرنے کے بعد بھی پولس نے تبریز کا مناسب علاج نہیں کروایا اور بہت دیر بعد میں اسپتال میں داخل ہونے کے سبب اس کی موت ہو گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Jun 2019, 7:10 PM