جھارکھنڈ کے ووٹر بی جے پی وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے لیے پرعزم: سروے
جھارکھنڈ الیکشن میں روزگار اور تجارت ایک اہم ایشو ہوگا۔ کچھ ووٹروں کا ماننا ہے کہ ریاستی حکومت روزگار اور تجارت میں خراب حالت کے لیے ذمہ دار ہیں کیونکہ انھوں نے مناسب پالیسی تیار نہیں کی۔
جھارکھنڈ الیکشن میں روزگار اور تجارت اس مرتبہ اہم ایشوز ثابت ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کچھ ووٹروں نے تو واضح لفظوں میں کہا کہ ریاستی حکومت اور وزیر اعلیٰ اس خراب ماحول کے لیے ذمہ دار ہیں۔ یہ بات آئی اے این ایس اور سی-ووٹر جھارکھنڈ کے سروے میں سامنے آئی ہے۔ جھارکھنڈ میں ووٹروں نے مقامی روزگار یا تجارت کی حالت پر پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینے میں سب سے زیادہ دلچسپی دکھائی۔ ووٹروں سے پوچھا گیا کہ اس وقت آپ کے لیے سب سے بڑا ایشو کیا ہے؟ اس پر تقریباً 25 فیصد اہل ووٹروں نے کہا کہ اس الیکشن میں ان کے لیے روزگار اور تجارت کرنے سے متعلق معاملے سب سے زیادہ اہم ہیں۔
اس کے علاوہ 17 فیصد سے زیادہ ووٹروں نے کہا کہ پانی کی فراہمی کی حالت بھی ایک بڑا ایشو ہے، جب کہ مقامی سڑکوں کی حالت کو 11.6 فیصد لوگوں نے بڑا ایشو قرار دیا۔ 10 فیصد لوگوں نے بجلی فراہمی کی بدتر حالت کا حوالہ دیتے ہوئے ریاست میں بی جے پی حکومت کی سخت تنقید کی۔ علاوہ ازیں مہنگائی کو 3 فیصد، حکومت کی بدعنوانی پر کنٹرول کے لیے 2 فیصد، مقامی صحت خدمات کے لیے 2 فیصد سے کم اور قانون و انتظام، معیشت کی حالت اور خاتون سیکورٹی کے ایشو کو ایک فیصد سے کم ووٹروں نے توجہ دی۔
ووٹروں سے جب پوچھا گیا کہ اس طرح کے مسائل یا ایشوز کے لیے آپ کسے ذمہ دار مانتے ہیں؟ اس پر 26 فیصد ووٹروں نے کہا کہ ریاستی حکومت ان معاملوں کے لیے ذمہ دار ہے۔ جب کہ 11 فیصد سے زائد لوگوں نے سیدھے طور پر وزیر اعلیٰ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
مقامی رکن اسمبلی کو تقریباً 16 فیصد ووٹروں نے ریاست کے ایشوز کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا، جب کہ صرف 6.5 فیصد ووٹروں نے مانا کہ مرکزی حکومت اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ سروے میں سامنے آیا کہ تقریباً 4.5 فیصد لوگوں نے وزیر اعلیٰ کو ریاست میں موجود ایشوز کے لیے ذمہ دار مانا۔ ووٹروں سے جب پوچھا گیا کہ ان مسائل/ایشوز کو بہتر طریقے سے کون سی پارٹی حل کر سکتی ہے؟ اس کے جواب میں تقریباً 38 فیصد لوگوں نے بی جے پی پر بھروسہ ظاہر کیا اور دیگر نے اس کے خلاف اپنی بات کہی۔
واضح رہے کہ جھارکھنڈ میں 30 نومبر سے 20 دسمبر تک کل پانچ مراحل میں انتخاب ہوں گے، جن کے نتائج 23 دسمبر کو آئیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔