کیا بی جے پی کو مہاراشٹر کے بعد جھارکنڈ میں بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے؟
ایگزٹ پول کے نتائج اشارہ کر رہے ہیں کہ جھارکنڈ میں بی جے پی کے لئے راستہ آسان نہیں ہے اور اس کے ہاتھ سے ایک اور ریاست جا سکتی ہے۔
جھارکنڈ اسمبلی انتخابات کے آخری مرحلہ کے بعد آئے ایگزٹ پول بی جے پی کے لئے اچھی خبر لے کر نہیں آئے ہیں۔ ایگزٹ پول سے صاف ظاہر ہو رہا کہ ان انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت نہیں ملے گی اور اس کے لئے حکومت بنانا مشکل ہوگا۔ اس کے بر خلاف ان ایگزٹ پول میں کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن کافی بہتر نظر آ رہی ہے اور دو پولس کے نتائج تو کانگریس کو وضح اکثریت دیتے نظر آ رہے ہیں جبکہ ایک تیسرے ایگزٹ پول میں بھی کانگریس کو بی جے پی سے آگے دکھایا جا رہے۔
انڈیا ٹو ڈے اور ایکسس مائی انڈیا کے ایگزٹ پول کے نتائج کے حساب سے کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو 38-50 سیٹیں مل سکتی ہیں، بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو 22-32 سیٹیں ملنے کا امکان ہے، اے جے ایس یو کو 3-5 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ دیگر کے کھاتے میں خاصی سیٹیں جاتی دکھائی گئی ہیں اور حالات ایسے بھی پیدا ہو سکتے ہیں جہاں اقتدار کی چابی دیگر کے ہاتھوں میں رہے۔ ادھر آئی این ایس اور سی ووٹر کے ایگزٹ پول میں کانگریس اور اتحادیوں کو 35سیٹیں دکھائی گئی ہیں، بی جے پی کو 32 سیٹیں ملتی نظر آ رہی ہیں، اے جے ایس یو کو 5 سیٹیں ملنے کا امکان ہے اور دیگر کے کھاتے میں 9 سیٹیں جا سکتی ہیں۔
تیسرے ایگزٹ پول جو کشش نیوز نے کروایا ہے اس کے مطابق کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو واضح اکثریت ملتی نظر آ رہی ہے ۔ اس ایگزٹ پول کے مطابق کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو 37-49سیٹیں ملنے کا امکان ہے جو حکومت بنانے کے لئے کافی ہیں۔اس ایگزٹ پول کے مطابق بی جے پی اور اس کے اتحٓادیوں 25-30کو سیٹیں مل سکتی ہیں، اے جے ایس یو کو 2-4سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ دیگر کو بھی 2-4سیٹیں مل سکتی ہیں ۔
واضح رہے جھارکنڈ اسمبلی میں کل 81 سیٹیں ہیں اور حکومت سازی کے لئے کسی بھی پارٹی یا اتحاد کو 41 سیٹیں جیتنا لازمی ہے ۔ ان انتخابات میں کانگریس کے ساتھ آر جے ڈی اور جے ایم ایم نے مل کر چناؤ لڑا تھا جبکہ بی جے پی کے مرکز میں اتحادی ایل جے پی نے بی جے پی سے الگ ہو کر چناؤ لڑا تھا ۔ اگرجھارکنڈ کے نتائج ایگزٹ پول کے مطابق آتے ہیں اور وہ وہاں کانگریس کا اتحادحکومت سازی میں کامیاب ہو جات ہے تو بی جے پی کے لئے مہاراشٹرا کے بعد ایک بہت بڑا جھٹکا ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Dec 2019, 9:07 AM