جواہر لال نہرو کی شادی کا اُردو دعوت نامہ

اُردو ہمیشہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہندوستان کی زبان رہی ہے، اس کا جیتا جاگتا ثبوت جواہر لال نہرو کی شادی کا دعوت نامہ ہے، اُردو زبان کے اس دعوت نامہ میں تاریخ، سنہ اور وقت بھی اُردو میں لکھا گیا ہے۔

تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد
تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد
user

تنویر احمد

یوں تو فارسی اور فارسی آمیز اُردو قدیم ہندوستان میں تعلیم یافتہ طبقہ کی شان اور ان کی علمی صلاحیتوں کا پیش خیمہ ہوا کرتی تھیں لیکن بیسویں دہائی کے آغاز سے یا اس کے کچھ پہلے سے اُردو کو دھیرے دھیرے فراموش کیا جانے لگا۔ اُردو کو سب سے زیادہ نقصان اس بات سے پہنچا کہ اس کا رشتہ اقلیتی طبقہ سے جوڑ دیا گیا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اُردو ہمیشہ ہندوستان کی زبان رہی ہے نہ کہ مسلمان کی زبان۔ اس کا بہترین نمونہ اور جیتا جاگتا ثبوت جواہر لال نہرو کی شادی کا وہ کارڈ اور دعوت نامہ ہے جو اُردو زبان میں شائع ہوا تھا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کارڈ میں ہندسہ یعنی تاریخ، سنہ اور وقت بھی اُردو میں ہی لکھا گیا ہے۔

جواہر لال نہرو اور کملا کول کی شادی سے متعلق تین دعوت نامے، جو ایک دستاویز کی حیثیت رکھتےہیں، میرے سامنے ہے اور اس میں تحریر کردہ اُردو پڑھ کر یقیناً اُردو والوں کو اندازہ ہوگا کہ آج مسلم سماج میں شائع اُردو کے شادی کارڈ کی زبان میں اتنی شیرنی نہیں ہوگی جتنی کہ جواہر لال نہرو کی شادی کارڈ میں ملتی ہے۔ پہلا دعوت نامہ جو پنڈت جواہر لال نہرو کے والد پنڈت موتی لال نہرو کی جانب سے شائع ہوا تھاوہ کچھ اس طرح ہے:

التجا ہے کہ بروز شادی

برخوردار جواہر لال نہرو

بتاریخ ۷ فروری سنہ ۱۹۱۶ء بوقت ۴ بجے شام

جناب معہ عزیزان

غریب خانہ پر چاء نوشی فرما کر

بہمرہی نوشہ

دولت خانہ سمدھیان پر تشریف شریف

ارزانی فرماویں

نہرو ویڈنگ کیمپ ———————————— بندہ موتی لال نہرو

علی پور روڈ، دہلی

تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد
تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد

دوسرا دعوت نامہ جو کہ موتی لال نہرو کی جانب سے مہمانان کو آنند بھون (الٰہ آباد)میں مدعو کرتے ہوئے شائع کرایا گیا تھا، اسے بھی دیکھیے:

تمنا ہے کہ بتقریب شادی

برخودار جواہر لال نہرو

ساتھ

دختر پنڈت جواہر مل کول

بمقام دہلی

بتاریخ ۷ فروری سنہ ۱۹۱۶ء و تقاریب

ما بعد بتواریخ

۸ و ۹ فروری سنہ ۱۹۱۶ء

جناب معہ عزیزان شرکت فرما کر

مسرت و افتخار بخشیں

بندہ موتی لال نہرو

منتظر جواب

آنند بھون

الٰہ آباد

تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد
تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد

تیسرا کارڈ بہو رانی یعنی کملا کول کی آمد سے متعلق تھا جس میں عشائیہ کے اہتمام کا تذکرہ تھا اور عزیزان سے شریک دعوت ہونے کی گزارش تھی۔ یہ کارڈ دو صفحات پر مشتمل تھا۔ کارڈ کے الفاظ اس طرح ہیں:

(پہلا صفحہ)

شادی

برخوردار جواہر لال نہرو

ساتھ

دختر پنڈت جواہر مل کول صاحب

(دوسرا صفحہ)

آرزو ہے کہ

بتقریب آمدن بہو رانی

بتاریخ ۹ فروری ۱۹۱۶ء بوقت ۸ بجے شام

جناب معہ عزیزان غریب خانہ پر تناول ماحضر فرما کر

مسرت و افتخار بخشیں

بندہ موتی لال نہرو

نہرو ویڈنگ کیمپ

علی پور روڈ- دہلی

تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد
تصویر بشکریہ جواہر لال نہرو میوزیم، الٰہ آباد

تینوں کارڈ دیکھ کر آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ نہرو خاندان کی اُردو سے محبت کے ساتھ ساتھ علمی و دانشور طبقہ میں اُردو کی مقبولیت کی بھی عکاس ہے۔ جہاں تک پنڈت جواہر لال نہرو کا معاملہ ہے، وہ بچپن سے ہی اُردو ادب، خصوصاً شاعری سے شغف رکھتے تھے۔ جن لوگوں نے پنڈت نہرو کی حیات و خدمات کا مطالعہ کیا ہے انھیں معلوم ہے کہ الٰہ آباد میں پیدا ہوئے جواہر لال نہرو کو ابتدائی تعلیم جب گھر پر دی گئی تو سنسکرت، ہندی اور انگریزی کی طرح اُردو میں بھی علیحدہ استاد کی سہولت دی گئی۔ یہی سبب ہے کہ انھیں اُردو سے لگاؤ رہا اور ان کے دوستوں میں فراق گورکھپوری، جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، ساغر نظامی، بچپن جی وغیرہ شامل تھے۔ فراق گورکھپوری کے ساتھ تو انھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی۔

جواہر لال نہرو کی اُردو فہمی کا اندازہ بمبئی کی ایک محفل میں پیش آئے واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ دراصل اس محفل میں پروڈیوسر سہراب مودی کی ہیروئن اہلیہ مہتاب نے جواہر لال کے سامنے ایک مصرع پڑھا جو اس طرح تھا:

تم سلامت رہو ہزار برس

اس مصرع کو سنتے ہی جواہر لال نہرو نے فوراً دوسرا مصرع سنا دیا:

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

چونکہ پنڈت جواہر لال نہرو اُردو زبان سے آشنا تھے اس لیے اُردو شاعری کی شہرۂ آفاق شخصیت علامہ اقبال کو بہت پسند کرتے تھے۔ کئی بار انھوں نے اقبال کی شاعری سے متعلق اپنے نظریات بھی بیان کیے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’تلاش ہندوستان‘ میں ایک مقام پر لکھا ہے کہ ’’ وہ اپنے زمانے کے حالات اور مسلمانوں کے جذبات سے متاثر ہوئے اور خود اُنہوں نے اُن کے جذبات پر اثر ڈالا اور اُنہیں اور شدید تر کر دیا لیکن وہ عوام کی قیادت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک عالم، شاعر اور فلسفی تھے ۔ اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا۔‘‘

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اقبال کی شاعری کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا، اور ایسا تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب وہ اُردو سے رغبت رکھتے ہوں۔ اُردو سے جواہر لال نہرو کی انسیت کا ایک واقعہ اکتوبر 1946 کا بھی ہے۔ اس وقت انھوں نے سرحدی علاقے میں قبائلیوں سے ملاقات اور تبادلہ خیال کے لیے دورہ کیا تھا۔ اس دوران انھوں نے اُردو میں ہی خطاب کیا تھا۔ کچھ مقامات پر عوام نے اعتراض بھی ظاہر کیا تھا کہ پشتو میں خطاب کیوں نہیں کیا جا رہا۔ بہر حال، جواہر لال نے اُردو کو اہمیت دی اور اس زبان میں ہی خطاب کرنا پسند فرمایا۔

آج ماحول بہت بدل گیا ہے۔ جواہر لال نہرو کی شادی کے 100 سال سے زائد ہو گئے ہیں۔ اُردو زبان سے آشنا غیر مسلموں کی تعداد بھی انتہائی کم ہو چکی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم اور بچوں کے درمیان چاچا نہرو کے نام سے مشہور پنڈت جواہر لال نہرو کی نسل سے تعلق رکھنے والے راہل گاندھی بھی کچھ حد تک اُردو سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر کبھی کبھی غالب اور اقبال جیسے شاعروں کا کلام ڈال دیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Nov 2017, 12:53 PM