سنگھو بارڈر قتل پر اکال تخت صاحب کے جتھہ دار نے دیا بڑا بیان

جتھہ دار نے کہا کہ کسی غیر جانبدار ایجنسی سے سنگھو بارڈر واقعہ کے سبھی پہلوؤں کی باریکی سے جانچ کرائی جائے اور اس کے پیچھے جو سچائی ہے اسے سامنے لایا جائے۔

کسان سنگھو بارڈر، تصویر یو این آئی
کسان سنگھو بارڈر، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

سکھوں کے سرکردہ مذہبی ادارہ شری اکال تخت صاحب کے جتھہ دار گیانی ہرپریت سنگھ نے سنگھو بارڈر پر ہوئے قتل کو ریاست کے نظام قانون کا انہدام ہونا قرار دیا ہے۔ اپنے ایک اہم بیان میں انھوں نے کہا کہ تمام پہلوؤں پر تفصیلی اور سنجیدہ جانچ ہونی چاہیے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا کے سامنے سکھ قوم کی صحیح شبیہ سامنے آ سکے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس اور حکومت معاملے کی مذہبی حساسیت اور جذباتی سنگینی کو نظر انداز نہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ ادھوری دلیلوں کے ساتھ کسانوں اور سکھوں کی شبیہ خراب کر رہا ہے۔

جتھہ دار گیانی پریت سنگھ نے کہا کہ سنگھو بارڈر پر 15 اکتوبر کو پیش آئے قتل واقعہ کے پیچھے میں گزشتہ کچھ سالوں سے پنجاب میں پیش آئے 400 سے زیادہ شری گرو گرنتھ صاحب جی کی بے ادبی کے واقعات ہیں، جن میں قانون کسی ایک گنہگار کو سزا نہیں دے سکا۔ یہ سکھوں کے زخموں پر نمک جیسا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سکھوں کے لیے شری گرو گرنتھ صاحب سے اوپر کچھ بھی نہیں ہے۔ ملزمین کو ذہنی مریض ٹھہرا دیا جاتا ہے۔


جتھہ دار نے کہا کہ کسی غیر جانبدار ایجنسی سے سنگھو بارڈر واقعہ کے سبھی پہلوؤں کی باریکی کے ساتھ جانچ کرائی جائے اور اس کے پس منظر میں جو سچائی ہے اسے سامنے لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ پنجاب میں فرقہ وارانہ اور نسل پرستی پر مبنی تنازعہ پیدا کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان سے محتاط رہنا چاہیے۔

اُدھر دَل خالصہ نے کہا کہ سنگھو بارڈر کے واقعہ کو نسل پرستی کا رنگ نہیں دیا جانا چاہیے۔ دَل خالصہ کے ترجمان پرمجیت سنگھ منڈ نے کہا کہ بی جے پی لیڈر وجے سامپلا اس واقعہ کو نسل پرستی کی رنگ دے رہے ہیں۔ منڈ کہتے ہیں کہ یہ نہ تو کسانی مسئلے سے متعلق واقعہ ہے اور نہ ہی اس کا تعلق ذات پات سے ہے۔ اسے سکھ بنام دلت کا رنگ دینا سراسر غلط ہے، اس کے نتائج پنجاب کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی ایسی سازشوں سے باز آئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔