دہلی: ممکنہ بلڈوزر کارروائی سے خوفزدہ جسولا گاؤں کے باشندگان، ’آخر جائیں تو جائیں کہاں؟‘

بہار سے 25 سال قبل آکر جسولا کی کچی آبادی میں رہنے والے اکرام نے بتایا کہ بہار میں جہاں ان کا گھر تھا وہاں سیلاب آیا اور ان کا گھر بھی بہہ گیا۔ اس وقت بچے چھوٹے تھے، اس لیے یہاں آ کر آباد ہو گئے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: راجدھانی دہلی میں تینوں میونسپل کارپوریشن تجاوزات کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں۔ جسولا گاؤں میں عثمانیہ مسجد کے قریب واقع پیر بابا کی بستی میں لوگ گزشتہ 20-25 سالوں سے رہ رہے ہیں لیکن اب انہیں کسی بھی وقت اپنا آباد مکان چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ کارپوریشن کے میئر مکیش سوریان نے کچھ دن پہلے علاقے کا معائنہ کیا اور غیر قانونی طور پر رہنے والے لوگوں کو خبردار بھی کیا۔ ساتھ ہی جھگی باشندگان کو انتباہ دیا۔ اس کے بعد سے لوگ اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ جس زمین پر وہ اتنے سالوں سے رہ رہے ہیں، اب وہاں سے بے دخل ہونا پڑے گا!

حالانکہ تمام لوگ خود بھی اس بات سے واقف ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں لیکن برسوں پہلے عہدیداران کے ذریعہ کی گئی غفلت کی سزا انہیں اب ملنے جا رہی ہے۔ تقریباً 450 لوگ تقریباً 40 سے 50 جھگیوں میں رہ رہے ہیں، کچھ لوگ روزی کمانے کے لیے رکشہ چلاتے ہیں، کچھ گھروں میں کام کرتے ہیں اور کچھ مزدوری کرتے ہیں۔ کمسن بچے اور بیوہ خواتین اب آنکھوں میں آنسو اور دل میں خوف لیے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں رہنے والے بہت سے لوگوں کے پاس راشن کارڈ، آدھار کارڈ ہیں اور کئی گھروں میں بجلی کے میٹر بھی لگے ہوئے ہیں۔


بہار سے 25 سال قبل آکر جسولا کی کچی آبادی میں رہنے والے اکرام نے بتایا کہ بہار میں جہاں ان کا گھر تھا وہاں سیلاب آیا اور ان کا گھر بھی بہہ گیا۔ اس وقت بچے چھوٹے تھے، اس لیے یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ اب ان کے پاس راشن کارڈ بھی ہے اور ان کے بچے بھی یہیں پروان چڑھے ہیں۔ اکرام نے کہا کہ ’’اگر اب ہمیں یہاں سے بھگا دیا جائے گا تو ہم کہاں جائیں گے؟ اتنی کمائی بھی نہیں کہ کرائے پر گھر لے سکیں۔ جب ہم یہاں آباد ہوئے تو ہمیں معلوم تھا کہ یہ سرکاری زمین ہے لیکن ہم نے مجبوری میں یہاں رہنا شروع کیا تھا۔ اگر اس وقت یہاں نہ رہتے تو مر جاتے!‘‘

یہیں کی رہائشی فاطمہ کے شوہر کا کئی سال قبل انتقال ہو گیا اور وہ اب گھروں میں کام کر کے روزی روٹی کما رہی ہیں۔ فاطمہ نے کہا ’’میں نے یہیں شادی کی اور میرے بچے بھی یہیں پیدا ہوئے۔ جب ہم یہاں آباد ہوئے تھے تو یہاں صرف کھیت تھے۔ میرے بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں اور ایک بچے کے گردے میں پتھری ہے۔ میں بھی بیمار ہوں۔ ہماری ان جھونپڑیوں میں بجلی کے میٹر بھی لگے ہوئے ہیں اور ہم بل بھی ادا کرتے ہیں۔‘‘


فاطمہ نے مزید کہا، میئر نے آ کر کہا کہ یہ جگہ خالی کردو، لیکن ہم جائیں گے کہاں؟ ہمیں خالی کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہم جائیں گے کہاں؟ ہمیں کہیں جگہ دو تاکہ ہم رہ سکیں۔‘‘ دراصل دہلی میں جہانگیرپوری تشدد کے بعد تجاوزات کے خلاف کارروائی شروع ہوئی، جو پوری دہلی میں آگ کی طرح پھیلنے لگی ہے۔ کارپوریشن تجاوزات کرنے والوں کے خلاف مسلسل کارروائی کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔