کشمیر: خبروں کے گڑھ میں خَبروں کی قحط سالی، صحافی پریشان

نوجوان صحافی نے بتایا کہ خبریں حاصل کرنے کا سوشل میڈیا ایک اہم ذریعہ ہے، چونکہ اہلیان کشمیر دو مہینوں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے قاصر ہیں اس لئے خبر تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں مواصلاتی نظام پر جاری قدغن سے جہاں لوگ گوناگوں مشکلات سے دوچار ہیں وہیں یہاں 'خبروں' کے کال سے صحافیوں کا کام بھی مشکل بن گیا ہے۔ وادی کشمیر کو خبروں کا گڑھ مانا جاتا تھا کیونکہ تشدد زدہ زون ہونے کے باعث یہاں خبریں فراواں ہوتی تھیں لیکن گزشتہ قریب دو ماہ سے مواصلاتی نظام پر جاری پابندی، مین اسٹریم و علیحدگی پسند لیڈران کی نظربندی و گرفتاری اور دیگر قدغنوں کی وجہ سے یہاں اب صحافیوں کے لئے ایک خبر تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔

ایک مقامی صحافی نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ مواصلاتی نظام پر جاری پابندی اور مین اسٹریم و علیحدگی پسند لیڈران کی نظربندی و گرفتاری کی وجہ سے یہاں خبر تلاش کرنا ہمارے لئے کارے دارد والا معاملہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'یہاں خبریں فراواں ہوتی تھیں لیکن اب چونکہ مواصلاتی نظام ہی بند ہے اور مین اسٹریم و علیحدگی پسند لیڈر نظربند یا پولس حراست میں ہیں لہٰذا خبر تلاش کرنا کارے دارد والا معاملہ بن گیا ہے'۔


ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سرکاری ذرائع جو معاملات پر کھل کر بات کرتے تھے آج کل کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ جب بھی ہم دفتر کے لینڈ لائن نمبرات یا میڈیا سنٹر کے موبائل فون سے کسی سرکاری افسر کو فون کرتے ہیں تو وہ کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت ظاہر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارا کام مشکل بن جاتا ہے'۔

ایک اور صحافی جو ایک نیوز ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہے، نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس قدر مشکلات کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جس قدر آج کل کرنا پڑرہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 'میں گزشتہ دو دہائیوں سے ایک نیوز ایجنسی میں نمائندے کی حیثیت سے کام کررہا ہوں لیکن جس قدر خبریں تلاش کرنے میں آج کل مشکلات کا سامنا ہے پہلے کبھی نہیں تھا، مواصلاتی نظام پر جاری پابندی سے معلوم نہیں ہورہا ہے کہاں کیا ہورہا ہے اور اس کے علاوہ سیاسی لیڈر بھی نظر بند ہیں جس کی وجہ سے ان کی سرگرمیاں بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں جو خبروں کی قحط سالی کا ایک اور بڑا سبب ہے'۔


موصوف صحافی نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے قائم میڈیا سینٹر میں بیٹھے صحافی ایک دوسرے سے ہی خبریں معلوم کرنے کے لئے 'کوئی خبر نہیں ہے' کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'انتطامیہ کی طرف سے قائم شدہ میڈیا سینٹر میں صحافی دن بھر بیٹھے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے خبریں معلوم کرنے کے لئے "خبرا ما چھ" یعنی کوئی خبر نہیں ہے کو دوہراتے رہتے ہیں'۔ ایک نوجوان صحافی نے بتایا کہ سوشل میڈیا خبریں حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، چونکہ اہلیان کشمیر گزشتہ دو مہینوں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے قاصر ہیں یہ خبروں کے کال کا ایک بڑا وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آتا تھا تو مقامی لوگ سٹیزن جرنلسٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے مذکورہ واقعہ کی تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے تھے۔ ہم ان سٹیزن جرنلسٹس سے رابطہ قائم کرکے تفصیلی خبریں کرتے تھے۔ اب چونکہ انٹرنیٹ گزشتہ دو ماہ سے معطل ہے خبروں کی ترسیل بھی بری طرح سے متاثر ہے'۔ تاہم وادی کشمیر میں موجودہ حالات کے چلتے مقامی اخباروں کی سرکولیشن میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک مقامی روز نامے کے مدیر نے بتایا کہ یہاں اخباروں کی سرکولیشن میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔


انہوں نے کہا ’مواصلاتی پابندی کے بیچ چونکہ اخبار ہی لوگوں کے لئے معتبر خبروں کا وسیلہ ہے لہٰذا اخباروں کی سرکولیشن میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے‘۔ موصوف مدیر نے مزید کہا کہ یہاں ابھی بھی لوگ زیادہ تر اردو اخبار ہی پڑھتے ہیں لہٰذا اردو اخباروں کی سرکولیشن میں زیادہ ہی اضافہ ہورہا ہے۔ وادی میں ابھی بھی بیشتر لوگ اردو اخبار پڑھنا ہی پسند کرتے ہیں اور ہر دس اخبار پڑھنے والوں کے ہاتھوں میں اردو زبان کے اخبار ہی دیکھے جاتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کی طرف سے سری نگر کے ایک نجی ہوٹل میں ایک میڈیا سنٹر قائم کیا گیا ہے۔ یہ میڈیا سنٹر وادی میں موجود مقامی و غیر مقامی صحافیوں اور مقامی میڈیا اداروں کے لئے آکسیجن جیسا ثابت ہورہا ہے۔ میڈیا سنٹر جہاں صحافیوں اور میڈیا اداروں کے لئے انٹرنیٹ کنکشن سے لیس 9 کمپیوٹرس اور کالنگ کے لئے موبائل فون دستیاب رکھے گئے ہیں، میں صبح سے رات دیر گئے تک صحافیوں اور مقامی اخبارات کے ملازمین کو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM