مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا ’جامعہ واقعہ‘ کے لیے ذمہ دار: جامعہ چیف پراکٹر

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ ’’ہمیں اس واقعہ سے زبردست جھٹکا لگا ہے۔ ہمیں ایک یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ پھر سے نہیں ہوگا۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

جامعہ فائرنگ میں زخمی ہوئے شاداب فاروق کو اسپتال سے چھٹی مل گئی ہے، لیکن اس واقعہ سے لوگ اب تک حیران ہیں کہ پولس کی موجودگی میں آخر یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چیف پراکٹر نے اس سلسلے میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے واقعہ کا ذمہ دار مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو ٹھہرایا ہے جنھوں نے انتخابی تشہیر کے دوران زہر آلود بیان دیے تھے۔ جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر بھی اس پورے واقعہ سے مایوس ہیں اور دہلی پولس پر کئی سوال بھی کھڑی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

جامعہ چیف پراکٹر وسیم احمد خان نے واقعہ کے بعد میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’طلبا راج گھاٹ تک مارچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ طلبا کا یہ مارچ پوری طرح سے ایک پرامن احتجاج تھا۔ پھر اس آدمی (گوپال شرما) نے گولی کیوں چلائی؟‘‘ وہ آگے کہتے ہیں کہ ’’یہ واقعہ انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ انھوں نے لوگوں کو مشتعل کیا۔ ہم اس واقعہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پولس اور حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔‘‘


دوسری طرف وائس چانسلر نجمہ اختر نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنی مایوسی اور ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انھوں نے سوال کیا ہے کہ پولس نے وقت رہتے بندوق لیے شخص کو کیوں نہیں پکڑا۔ وہ ویڈیو میں کہتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ ’’بندوق لیے شخص سے 30 میٹر کی دوری پر تقریباً دو درجن پولس اہلکار کھڑے تھے، مارچ کو لے کر 300 پولس اہلکار اور سی آر پی ایف کی پانچ کمپنیاں علاقے میں تعینات تھیں۔ پھر یہ سب کیسے ہوا۔‘‘

اپنے ویڈیو میں وائس چانسلر نے طلبا کے صبر و تحمل کی تعریف بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ چیزیں ہاتھ سے نکل سکتی ہیں جس کی طرف دھیان دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں اس واقعہ سے بڑا جھٹکا لگا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص پولس کے سامنے پستول لہرائے اور کوئی اسے روک نہ سکے۔ پھر وہ کسی کو گولی مارتا ہے اور بہت ہی سہل انداز میں پکڑا جاتا ہے۔ یہ واقعہ ہمارے بھروسے کو توڑ رہا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’مجھے امید ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ ہمیں ایک یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ پھر سے نہیں ہوگا۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی احاطوں کے آس پاس حالات کو سنبھالنے کے لیے دو مہینوں میں تیسری بار دہلی پولس کے کردار پر سوال اٹھے ہیں۔ حالانکہ دہلی پولس نے دعویٰ کیا ہے کہ جامعہ فائرنگ کا واقعہ بہت تیزی کے ساتھ سرزد ہوا۔ اسپیشل سی پی کرائم پرویر رنجن نے کہا کہ ’’جب تک پولس کچھ کر پاتی، اس شخص نے گولی چلا دی تھی۔ سب کچھ چند سیکنڈ میں ہو گیا۔ جانچ جاری ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔