جلیانوالہ باغ سانحہ: برطانوی تاریخ پر ایک بدنما داغ
بہت سے لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر فرار ہونے کی کوشش کی اور فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، کچھ لوگ نیچے لیٹ گئے لیکن ایسا کرنے والوں کو بھی پہلے سے لیٹ کر پوزیشن لینے والے گورکھاؤں نے نہیں بخشا۔
آج 13 اپریل ہے اور آج سے 100 سال پہلے پنجاب کے امرتسر میں واقع جلیانوالہ باغ میں برطانوی سامراج نے وہ سفاک کارروائی انجام دی تھی جو ہمیشہ کے لئے تاریخ کا ایک بد نما داغ بن کر رہ گئی ہے۔ 13 اپریل 1919 کو بیساکھی کے روز ہزاروں ہندوستانی جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے اور پُر امن اجلاس کر رہے تھے۔ یہ اجلاس پنجاب کے دو مقبول رہنماؤں کی گرفتاری اور رولیٹ ایکٹ کی مخالفت میں رکھی گئی تھی۔ اس سے دو دن قبل امرتسر میں شرپسندوں نے ایک انگریز خاتون کی بے حرمتی کی تھی جس کی وجہ سے برطانوی حکومت غصہ میں تھی۔ اسی غصہ میں جنرل ڈائر 90 فوجیوں کی ایک نفری لے کر جلیانوالہ باغ پہنچ جاتا ہے۔
13 اپریل 1919 کو شام کے 5.30 بجے امرتسر کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے دو بکتر بند گاڑیاں جليانوالہ باغ کے نزدیک موجود ایک انتہائی پتلی گلی کے سامنے رُک گئیں۔ یہ گاڑیاں یہاں سے آگے نہیں جا سکتی تھیں کیونکہ اس گلی سے ایک ساتھ صرف دو لوگ ہی گزر سکتے تھے۔
ایک بکتر بند گاڑی پر بریگیڈیئر جنرل ریجنلڈ ڈائر اپنے میجر مورگن برگز اور اپنے 2 برطانوی سارجنٹ اینڈرسن اور پزی کے ساتھ سوار تھا۔ گاڑی سے اترتے ہی اس نے رائفلوں سے لیس 25 گورکھا اور 25 بلوچ فوجیوں کو اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا اور کھکھری سے لیس 40 فوجیوں کو باہر ہی کھڑے رہنے کا حکم دیا۔
جنرل ڈائر نے باغ میں داخل ہوتے ہی میجر برگز سے پوچھا کہ کتنے لوگ اس وقت یہاں پر موجود ہیں؟ برگز نے جواب دیا تقریباً پانچ ہزار افراد ہوں گے۔ جنرل ڈائر نے اس کے بعد کوئی انتباہ دیئے بغیر وہاں پہنچنے کے 30 سیکنڈ کے اندر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ جنرل ڈائر کے حکم کو کیپٹن كریمپٹن نے اپنی زبان سے دہرایا اور فوجیوں نے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ فائرنگ کی وجہ سے وہاں ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا اور ہر کوئی ادھر ادھر بھاگنے لگا لیکن انہیں باہر جانے کا راستہ نظر نہیں آیا۔ وہاں موجود تمام افراد اس تنگ گلی کے دروازے پر جمع ہوکر باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس دوران جنرل ڈائر کے فوجی لوگوں کا نشانہ بناتے رہے، فائرنگ سے لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ متعدد افراد بھگدڑ میں دب کر ہلاک ہو گئے۔ کئی جگہ ایک کے اوپر ایک، 10 سے 12 لاشوں کا انبار لگتا چلا گیا۔
بہت سے لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر فرار ہونے کی کوشش کی وہ بھی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ بھیڑ میں موجود کچھ سابق فوجیوں نے چلا کر لوگوں سے لیٹ جانے کے لیے کہا، لیکن ایسا کرنے والوں کو بھی پہلے سے لیٹ کر پوزیشن لینے والے گورکھاؤں نے نہیں بخشا۔
جلیاںوالہ باغ میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے گولیوں کی بارش ہو رہی ہو، بس کبھی کبھی گولیاں چلنا ركتیں، کیونکہ فوجیوں کو اپنی رائفلیں دوبارہ لوڈ کرنی ہوتی تھیں۔ لیکن جنرل ڈائر خود دوڑ دوڑ کر اس طرف فائرنگ کرنے کا حکم دے رہا تھا جہاں زیادہ لوگ جمع ہو رہے تھے۔
گولیوں کی بارش کے درمیان ہی کچھ لوگوں نے ایک کنویں کی آڑ لینے کی کوشش کی اور کئی لوگوں نے کنویں میں کود کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی لیکن کافی تعداد میں لوگ کنویں میں ڈوب گئے۔ جنرل ڈائر ان لوگوں کو نشانہ بنانے کا حکم دے رہا تھا جو بہتر طور پر نشانہ بن سکتے تھے یا جو پیپل کے درخت کے تنے کی آڑ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔ باغ کا کوئی بھی ایسا حصہ نہیں بچا تھا جہاں گولیاں نہ برس رہی ہوں۔ بہت سے افراد بھگدڑ میں لوگوں کے پیروں کے نیچے آ کر کچلنے سے بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
فائرنگ میں پھنسنے والے لوگوں میں مولوی غلام جیلانی بھی تھے۔ بعد میں انھوں نے کانگریس کی تفتیشی کمیٹی کو بتایا، ’’میں دیوار کی طرف دوڑا اور لاشوں اور زخمی پڑے لوگوں کے ڈھیر پر گر پڑا۔ میرے اوپر بھی کچھ لوگ گر پڑے۔‘‘
انھوں نے بتایا، ’’'میرے اوپر گرنے والے کچھ لوگوں کو گولیاں لگیں اور وہ مارے گئے۔ میرے اوپر زخمی اور مردہ لوگوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں بھی مرنے والا ہوں۔‘‘
فائرنگ دس منٹ تک جاری رہی اور ڈائر نے بالآخر فائرنگ تب روکی جب انھیں لگا کہ فوجیوں کے پاس بہت کم گولیاں بچی ہیں۔ فائرنگ روکنے کے بعد ڈائر اپنی گاڑی تک پیدل چل کر گیا اور اسی راستے سے رام باغ واپس چلا گیا جس راستے سے وہ جلیانوالا باغ آیا تھا۔ وہ نہ تو نقصان دیکھنے کے لیے رکا اور نہ ہی اس نے زخمیوں کے علاج کا کوئی اہتمام کیا۔ جب گولیوں کے خول کی گنتی کی گئی تو ان کی تعداد 1650 پائی گئی۔
ہنٹر رپورٹ کے مطابق، ڈائر نے اندازہ لگایا کہ تقریباً 200 سے 300 افراد ہلاک ہو گئے ہوں گے، لیکن بعد میں انھوں نے تسلیم کیا کہ مرنے والوں کی تعداد 400 سے 500 کے درمیان رہی ہوگی۔
آٹھ بجے کے بعد پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ اگلی صبح تک زخمی بغیر كسی طبّی مدد کے وہیں پڑے رہے۔ انسانی خون کی بو پا کر کچھ آوارہ کتے جليانوالا باغ پہنچ گئے اور پوری رات انہوں نے ادھر ادھر بکھری لاشوں کو کھایا۔
جب ڈائر، مورگن اور ارون نے رات ساڑھے دس اور آدھی رات کے درمیان شہر کا دورہ کیا تو شہر مکمل طور پر خاموش تھا۔ باغ میں زخمی لوگ آہستہ آہستہ دم توڑ رہے تھے، لیکن پورے شہر میں ایک منحوس سناٹا چھایا ہوا تھا۔
جنرل ڈائر کو کوئی سزا تو نہیں دی گئی، لیکن ان کو وقت سے دو سال پہلے ہی ریٹائر کر دیا گیا۔ اس سے یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان میں وہ اب کوئی کام نہیں کر پائے گا۔ 20اپریل 1920 کو وہ انگلینڈ کے لیے روانہ ہو گیا جہاں سات سال بعد 23 جولائی 1927 کو اس کی موت ہو گئی۔
قتل عام کے بعد، سنگرور
ضلع کے سنام گاؤں میں پیدا ہونے والے ایک نوجوان شخص نے اس کا انتقام لینے کی قسم کھائی۔
اس نوجوان ادھم سنگھ کو وہ قسم پورا کرنے میں 21 سال لگ گئے۔ 13 مارچ 1940 کو لندن کے كیكسٹن ہال کے ایک اجتماع میں اس نے اپنی پستول سے ایک کے بعد ایک چھ فائر کیے۔ دو گولیاں وہاں موجود ایک شخص کو لگیں۔ وہ وہیں پر گر گیا اور پھر کبھی نہیں اٹھا۔ اس کا نام تھا سر مائیکل او ڈائر۔ وہ جلياں والا باغ قتل عام کے وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے اور اس نے جنرل ڈائر کی طرف کی جانے والی فائرنگ کی کارروائی کو ایک صحیح قدم بتایا تھا۔
(بی بی سی اردو میں شائع رپورٹ پر مبنی)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Apr 2019, 8:10 PM