آصفہ عصمت دری: رمیش جلّا کے جنون اور نوید کی قابلیت سے ہوا معمہ حل

اس غیر انسانی ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے جرم کا پردہ فاش کرنے والے دو افراد ہیں جنہیں اس معاملہ کی تحقیقات کے دوران دھمکیوں اور فرقہ وارانہ نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کٹھوعہ میں 8 سالہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے معاملہ میں مسلسل ہو رہے انکشافات کے سبب پورے ملک میں سخت ناراضگی ہے۔ اس دل دہلا دینے والی واردات میں بہیمانہ طریقہ سے قتل کی گئی معصوم آصفہ کا خیال برسوں تک ذی شعور عوام کو پریشان کرتا رہے گا۔ اس غیر انسانی ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے جرم کے معاملہ کا پردہ فاش کرنے والے دو افراد ہیں جنہیں اس معاملہ کی تحقیقات کے دوران دھمکیوں اور فرقہ وارانہ نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں جموں میں کرائم برانچ کے ایس ایس پی (سینئر سپرٹنڈنٹ آف پولس ) رمیش کمار جلّا کی ۔ رمیش کمار جلاّ ایک کشمیری پنڈت ہیں اور ان کا خاندان اس مشکل دور سے گزر چکا ہے جب کشمیری پنڈتوں کو وادی کشمیر چھوڑ دینی پڑی تھی۔ معصوم بچی کو انصاف دلانے کی کوششوں میں انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ جلّا نے اس وقت تک ہار نہیں مانی جب تک جائے وقوعہ پر موجودثبوتوں کی بنیاد پر ملزمان پر شکنجہ نہیں کس دیا۔

ایس ایس پی جلّا کی ٹیم نے جو نتیجہ نکالا اس کے مطابق آصفہ کو ضلع کٹھوعہ میں ایک مندر کے اندر اغوا کر کے رکھا گیا۔ مسلسل اس کی آبرو ریزی کی گئی۔ اس پر تشدد کیا گیا اور بلآخر اسے قتل کر دیا گیا۔ رمیش کمار جلا نے پورے معاملہ کی جانچ ریکارڈ وقت میں مکمل کی اور مقررہ 90 دن کی مدت 9 اپریل کو پوری ہونے سے 10 دن قبل ہی چارج شیٹ داخل کر دی۔ اس مدت کے دوران انہیں مختلف گروہوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان گروہوں میں جموں کے وکلاء کا طاقت ور گروپ بھی شامل ہے۔ جلاّ کو لگاتار دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

چار ج شیٹ میں چار پولس اہلکاراور ایک سبکدوش سرکاری افسر کو ملزم بنایا گیا ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق ریٹائرڈ سرکاری افسر اس سنگین جرم کا سرغنہ تھا۔ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ اس جرم کا مقصد جموں و کشمیر کا خانہ بدوش طبقہ گوجر بکروال کو ہندو اکثریتی علاقوں سے بھگانا اور خوف زدہ کرنا تھا۔ پولس کے مطابق آصفہ کو اس کے گھر کے نزدیک سےاغوا کر کے ایک مندر میں نشیلی اشیاء کھلا کر بے ہوشی کی حالت میں رکھا گیا ۔ مندر میں سرغنہ سانجی رام نے اس پر سفلی کاعمل بھی کیا اور اس کے ساتھ مسلسل ریپ کیا گیا۔ ریپ کے لئے ایک شخص کو اتر پردیش سے بھی بلایا گیا۔

اس معاملے کی تحقیقات کے لئے خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی ) تشکیل دی گئی تھی جس کی قیادت رمیش کمار جلاّ کر رہے ہیں۔ جلاّ نے ایس آئی ٹی کی ذمہ داری اچھا ریکارڈ رکھنے والے ایک نو جوان پولس افسرنوید پیر زادہ کو سونپی تھی۔ نوید کو مشکل سے مشکل ترین معاملہ کو بھی حل کرنے کا ماہر تصور کیا جاتا ہے۔

ابتداء میں نہ تو رمیش کمار جلاّ اور نہ ہی ان کے نائب نوید کو یہ معلوم تھا کہ ان کے محکمہ کے لوگ ہی اس واردات میں شامل ہون گے۔ ملزمان نے بہت ہی چالاکی کے ساتھ منصوبہ بنایا تھا اور گرفت میں آنے کے باوجود وہ زبان نہیں کھول رہے تھے۔ اس معاملہ میں چند مقامی پولس اہلکار بھی ملوث ہیں اس بات کو ملزمان نے تفتیشی ٹیم کو نہیں بتایا بلکہ ملزمان جانچ کی سمت کو بھٹکانے کی کوشش کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ ایک مقامی لڑکے نے نادانی میں اس جرم کو انجام دیا ہے۔

رمیش جلاّ اور نوید پیرزادہ کی ٹیم نے آصفہ کی لاش کی تصاویر کی گہرائی سے جانچ کی تو پایا کہ لاش پر جو کیچڑ لگاہوا ہے وہ اس جگہ کی مٹی سے علیحدہ ہے جہاں سے لاش برآمد ہوئی ہے۔ اس سے یہ صاف ہو گیا کہ قتل کہیں اور کیا گیا اور لاش کو یہاں پھینک دیا گیا ہے، لیکن کہاں اس کا جواب مشکل تھا۔ ایس آئی ٹی نے ریکارڈوں میں سے لاش کی مزید تصاویر حاصل کیں ۔ لیکن ان تصاویر کو دیکھ کر ایس آئی ٹی حیران رہ گئی کیوں کہ ان تصاویر میں لاش پر کیچڑ نہیں لگا ہوا تھا ۔ اس سے تفتیشی ٹیم کو شک ہوا کہ محکمہ پولس کا کوئی شخص ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔ ٹیم کے سامنے یہ سچ عیاں ہوا کہ ثبوت مٹانے کے ارادے سے بچی کے کپڑوں کو دھو دیا گیا تھا۔

پولس نے اس معاملہ کے سرغنہ سانجی رام سمیت 8 افراد کو گرفتار کر لیا۔ان میں اس کا نابالغ بیٹا وشال جنگوترا اور اس کا نابالغ بھتیجا بھی شامل ہے۔ شروع میں واردات کو اسی بھتیجے کا نادانی میں کیا گیا جرم قرار دیا جا رہا تھا۔ اس معاملہ میں غیبی طور سے تفتیشی ٹیم کو مدد ملی۔ پہلی بار مندر جانے پر ٹیم کے ہاتھ کچھ نہیں لگا لیکن بعد میں انہیں ایک اسٹور روم کی طرز پر بنا ہوا کمرہ دکھائی دیا، جس پر تالا لگا ہوا تھا۔ جس کی چابیاں سانجی رام کے پاس تھیں اسے کھلوایا گیا۔ اس کمرے سے بالوں کا ایک گچھا برآمد ہوا جسے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھجوایا گیا ۔ ان بالوں میں سے ایک بال کا ملان آصفہ کے ڈی این اے سے ہو گیا ۔

دریں اثنا ملزمان کے حق میں لوگ سڑکوں پر آنے لگے اور جلاّ اور ان کی ٹیم پر دباؤ بڑھنے لگا۔ انہیں تحقیقات مکمل کرنے میں دقت پیش آنے لگیں۔ کوشش یہی تھی کہ ایس آئی ٹی طے شدہ مدت میں چارج شیٹ داخل نہ کر سکے ۔

بنیادی طور پر سرینگر کے رہنے والے جلاّ نے 1984 میں بطور انسپکٹر پولس کی ملازمت اختیار کی تھی۔ اپنے جذبہ اور محنت کے بل پر انہیں ایس ایس پی کرائم برانچ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے اس معاملے کو حل کرنے میں دن رات ایک کر دیئے۔

اس معاملہ میں آخر کار ایس پی او (اسپیشن پولس افسر)دیپک کھجوریہ اور سریندر کمار، اسسٹنٹ سب انسپکٹر آنند دتا، ، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور پرویش کمار کے علاوہ ایک مقامی باشندے کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان لوگوں پر ثبوت مٹانے اور بچی کے کپڑے دھونے کا الزام ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق ان لوگوں نے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے ارادے سے مقامی پولس کو 1.5 لاکھ روپے بطور رشوت ادا کئے۔

عصمت دری اور قتل کی واردات سے لوگوں میں سخت غصہ پھوٹ پڑا۔ اس کے بعد ہی حکومت نے تحقیقات کی ذمہ داری کرائم برانچ کو سونپی تھی۔ ہندو ایکتا منچ نامی دائیں بازو کی تنظیم نے اس معاملہ کی تحقیقات میں رکاوٹیں پیدا کیں اور ملزمان کے حق میں ترنگا یاترا تک نکالی۔ یہاں تک کہ جب پولس ٹیم چارج شیٹ داخل کرنے کے لئے کٹھوعہ کی عدالت میں جار ہی تھی تو وکلاء کے ایک گروپ نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ ان وکلاء کے خلاف پولس نے معاملہ درج کر لیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Apr 2018, 5:24 PM