طنزومزاح: ان کی ’مہربانی‘، دیس کا مسلمان جنت میں رہنے لگا! مودی ہے تو ممکن ہے
مودی جی چھ سال سے ملک کو مسلمانوں کی جنت بنانے میں لگے ہیں مسلسل خون پسینہ بہا رہے مودی جی کہتے ہیں- چاہے جو ہو جائے، میری ہڈیاں گل جائیں، مگر میں ہندوستان کو مسلمانوں کی جنت بنا کر ہی رہوں گا۔
اجی سنتے ہو؟
اب آج پھر کوئی نئی بکواس لائی ہو؟
ہماری لائی خوشخبری بھی اگر آپ کو بکواس لگتی ہے تو اللہ ہی مالک ہے۔ جاؤ ہم نہیں سناتے۔ آپ جانتے ہیں کہ آج کل آپ گھر میں پڑے پڑے پتہ نہیں کتنی بکواس سناتے ہیں۔ ہم سب برداشت کرتے ہیں یا نہیں؟ کبھی منہ بھی نہیں کھولتے ہیں؟
ارے، تم تو فوراً ناراض ہو جاتی ہو۔ اچھا بتاؤ کیا بات ہے؟
آپ سنیں گے تو آپ کا دل خوشی سے اچھل پڑے گا۔ اتنا اچھل پڑے گا کہ دل کی بیماری جو آپ کو ہے، وہ ایک لمحہ میں ٹھیک ہو جائے گی۔ میں ایسی فرسٹ کلاس خبر لائی ہوں۔ زندگی بھر ایسی خوشخبری نہیں پڑھی میں نے۔
پہلے سناؤ تو، ایسا کیا غضب ہو گیا؟
سنیں گے! اچھا سنیے۔ اپنا انڈیا ہے نا، آج سے یہ مسلمانوں کے لئے ’سورگ‘ بن گیا ہے۔ ایسا اخبار میں چھپا ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں ہے، حقیقت ہے۔ ادھر لاک ڈاؤں نافذ ہوا، ادھر ہندوستان ہمارے لئے سورگ بن گیا۔ لاک ڈاؤن زندہ باد، پڑھیں، خبر پڑھیں۔
اخبار تو بعد میں پڑھیں گے۔ پہلے تم اسے مسلمانوں کا ’سورگ‘ کہنا بند کرو۔ بھگت لوگ ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم پر حملہ آور رہتے ہیں۔ اور نئی پریشانی مت کھڑی کرو۔ وہ کیا کہتے ہیں اسے، ہاں، ان کی ’بھاؤنائیں آہت‘ ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ’سورگ‘ نہیں ’جنت‘ کہو ’جنت‘۔ تم بھی محفوظ رہوگی اور ہم بھی!
اچھا بھئی جنت کہہ لو، کچھ بھی کہہ لو کیا فرق پڑے ہے!
آج کل بہت فرق پڑتا ہے۔ اچھا تو کیا کہہ رہی تھیں تم آج سے ہمارا ملک مسلمانوں کی جنت بن گیا ہے؟
ہاں جی، اور کیا؟ مٹھائی کھلائیں مٹھائی۔ آج سے یہ ممکن ہے، بلکہ کل سے ہی ہو چکا ہوگا ہمیں خبر آج لگی ہے۔ میں کہتی تھی نا کہ مودی جی ایک دن اسے ہماری جنت بنا کر ہی دم لیں گے اور انہوں نے بنا کر دکھا دیا! اب بتاؤ، عقل کے مالک آپ ہیں یا ہم ہیں؟
اچھا بھئی تم ہو۔ اب میرا ٹیم خراب مت کرو۔ اخبار وخبار میں کچھ نہ چھپا ہوگا، دن میں جاگتے جاگتے تم نے کوئی خواب دیکھا ہوگا۔ آج کل تم خواب بہت دیکھنے لگی ہو۔ ہر روز جان آفت میں رہتی ہے اور تمہیں روز ایسے سنہرے خواب نظر آنے لگے ہیں۔ غضب ہو بھائی، تمہارے باپ نے ایک نمونہ پیدا کیا اور ہمارے گلے میں باندھ دیا، غلطی ہمارے ابا حضور کی بھی تھی، کیا کریں. پچھتا رہے ہیں اب۔
یہی تو دقت ہے آپ کے ساتھ۔ ذرا صبر نہیں ہوتا۔ اگر میرے والد کو یہ بات پہلے معلوم ہوتی، تو وہ مجھے بالکل آپ کے پلے نہ باندھتے۔ یہ کوئی خواب نہیں، حقیقت ہے، حقیقت ہے۔ آپ جیسے لوگ حقیقت بھی نہیں دیکھ سکتے۔ آج یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے، دیکھیں، یہ یہاں ہے۔ وہ اپنے وزیر ہیں نا، مختار عباس نقوی صاحب! انہوں نے یہ کہا ہے۔
جو اپنا ضمیر بیچ چکے ہیں ان کی بات پڑھ کر تم مجھے سنا رہی ہو؟ مسلمانوں کے نام پر وزیر بن کر بیٹھے ہیں، تو ایسی بکواس تو کریں گے ہی، ورنہ ان کی نوکری جاتی رہے گی۔ ان کو اپنی نوکری کی فکر ہے، تمہاری زندگی کی نہیں، سمجھی!
یہ بھی پڑھیں : بے چارا ہندوستانی مسلمان، اب اچُھوت بھی ہو گیا... ظفر آغا
اجی آپ سے تو ہم بہت سمجھ چکے اب تک۔ ارے، کابینہ وزیر ہیں۔ آپ سے تو چائے بسکٹ کی ایک دکان نہیں چلائی گئی، وہ پورے ملک کی منسٹری چلا رہے ہیں۔ وہ بھی کسی اور کی نہیں مودی جی کی قیادت میں۔ وہ بکواس کریں گے یا آپ کر رہے ہو؟
اب میری جان بھی چھوڑو گی؟ ہو گئی نہ تمہاری خوشخبری کی خبر پوری، یا اور بھی باقی ہے کچھ؟
آپ کو تو کوئی بھی اچھی چیز اچھی نہیں لگی۔ ابھی ہم کہتے کہ اب یہ ملک مسلمانوں کے لئے ہے ہی نہیں بلکہ ہر سچے ہندوستانی کے لئے نرک بن چکا ہے، تب آپ کہتے، ہاں آج تم نے بڑے پتے کی بات کی ہے۔ کہتے کہ نہیں کہتے بتاؤ؟ میری قسم سچ کہنا، چھوٹ مت بولنا۔ جھوٹ سے نفرت ہے ہمیں۔
سچ تو یہی ہے جو میں کہتا ہوں۔
نہیں، میں تو نقوی صاحب کی بات پر ہی یقین کروں گی۔
کرو بھئی کرو۔ مجھے چھوڑ کر سب کی بات پر یقین کرو۔ تمہارا بڑا سگا ہے نہ وہ، کرو۔ اسی کی بات پر یقین کرو۔
ارے، وہ وزیر ہے۔ اوپر سے حکم آیا ہوگا کہ اس ملک کو آج سے مسلمانوں کی جنت بتانا ہے۔ نیچے کے بابوؤں نے ایسی فائل بنائی ہوگی۔ وزیر نے دستخط کیے ہوں گے۔ وزیر اعظم نے بھی اس پر دستخط کیے ہوں گے۔ تب جاکر نقوی صاحب نے یہ منادی کی ہوگی۔ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ پچھلے چھ سالوں سے مودی جی نے اس کے لئے خون پسینہ بہایا ہے۔ دیکھا نہیں آج کل مودی جی کو دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ اس آدمی میں خون ہی نہیں بچا ہے، وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں۔
پھر بھی بے چارے اس ملک کو مسلمانوں کی جنت بنانے میں مصروف ہیں۔ ہندو خفا ہو رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ مودی جی استعفی دو، ووٹ ہم سے لیا اور اسے مسلمانوں کی جنت بنا دیا۔ دھوکہ باز! ادھر، مودی جی کہہ رہے ہیں، چاہے کچھ ہو جائے، میری ہڈیاں گل جائیں، مگر میں ہندوستان کو مسلمانوں کی جنت بنا کر رہوں گا۔ اسی خواب کے ساتھ میں ملک کا وزیر اعظم بنا تھا۔
تم اب مذاق کر رہی ہو یا سنجیدہ ہو؟
خدارا، ہم نے آپ کے ساتھ کبھی مذاق کیا ہے؟ جوانی میں نہیں کیا تو اب بڑھاپے میں کیا کریں گے؟
تہمیں مودی جی ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آ رہے ہیں؟
ارے یہ دیکھنے کے لئے آنکھیں درکار ہیں، آنکھیں۔ جن کے پاس بٹن ہیں، وہ یہ نہیں دیکھ سکتے۔ سمجھے کچھ؟ بٹنی آنکھوں والے میاں۔ مورا بلما ہی بٹنی آنکھوں والا، مورا بلما۔
تمہارا دماغ پھر تو نہیں ہل گیا ہے؟ لگتا ہے تہمیں پاگل خانے میں داخل کرنا پڑے گا۔
مودی ہے تو ممکن ہے، مودی جی، تمہاری کرپا سے بشيرن ابھی جنت میں رہنے لگی ہے، دیکھا مودی کا کمال، یہاں بھی جنت، وہاں بھی جاؤں گی تو وہاں بھی جنت موجود ملے گی، میں جنّتی ہوں، میاں، اب۔ آپ بھی جلدی بن جاؤ، میں خدا حافظ کہوں، اس سے پہلے لگاؤ میرے ساتھ تم بھی نعرہ، مودی ہے تو ممکن ہے۔ لگاؤ ورنہ میں تمہارا بھرتا بنا دوں گی اور بھرتا کھانا مجھے بہت، بہت ہی پسند ہے، بہت لذيذ ہوتا ہے بھرتا۔
ارے سنو کوئی؟ لگتا ہے میری بیوی پاگل ہوگئی ہے۔ لاک ڈاؤن میں اسے پاگل خانے بھی نہیں لے جا سکتا۔ اے خدا، اے پروردگار میری مدد کر۔ چالیس سال سے یہ میری بیوی ہے۔ اس کا یہ حال تو کبھی نہیں ہوا تھا۔ بشیرن، بشیران، ہوش میں آؤ۔ تمہارے بغیر تو میں جیتے جی مر جاؤں گا۔ بشیرن ہمارے دو بچے پہلے فوت ہو چکے ہیں اور اب بیوی کا یہ حال ہے۔ اٹھا لے اللہ میرے، مجھے بھی اٹھا لے اب۔
مودی ہے تو ممکن ہے، لگا اے میرے میاں، لگا نعرہ، تو دیشبھگت ہے یا غدار، بتا، جلدی بتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Apr 2020, 9:11 PM