حقوق انسانی کارکنان کی گرفتاری کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری تھا: رومیلا تھاپر
عدالت کے فیصلے کے بعد رومیلا تھاپر نے کہا کہ حقوق انسانی کارکنان پر کوئی سنگین سازش کا الزام نہیں ہے اس لیے انھیں چار ہفتے تک نظر بند رہنے اور اس دوران قانونی راحت تلاش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔
بھیما-کوریگاؤں معاملے میں پونے پولس کے ذریعہ پانچ حقوق انسانی کارکنان کی گرفتاری پر آئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عرضی دہندہ اور ملک کی سب سے سینئر تاریخ داں رومیلا تھاپر کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک بہت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ غلط کو روکنے کے لیے ہم اپنی آواز اٹھانا چاہتے تھے۔ سول سوسائٹی کی شکل میں یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اسی لیے ہم سپریم کورٹ گئے۔ رومیلا تھاپر نے مزید کہا کہ عدالت میں اکثریت اور اقلیت دونوں کے فیصلے سے یہ صاف ہوا ہے کہ گرفتار لوگوں کے اوپر کوئی سنگین سازش کرنے کا الزام نہیں ہے اور اسی لیے انھیں چار ہفتے تک نظر بند کرنے اور اس دوران قانونی راحت تلاش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔
رومیلا تھاپر نے دیوکی جین، پربھات پٹنایک، ستیش دیش پانڈے اور مایا دارو والا کے ساتھ مہاراشٹر کی پونے پولس کے ذریعہ گوتم نولکھا، سدھا بھاردواج، ورورا راؤ، ارون فریرا اور ورنان گونزالویس کی گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
جمعہ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پانچوں عرضی دہندگان نے ایک پریس کانفرنس کیا اور بتایا کہ وہ اس لڑائی کو آگے بھی جاری رکھیں گے۔ پانچوں عرضی دہندہ کی طرف سے سینئر مورخ رومیلا تھاپر نے ایک بیان پڑھا جس میں کہا گیا کہ ’’ہمارا ارادہ عدالت کا دھیان اس بات کی جانب کھینچنا تھا کہ یہ یو پی اے (اَن لاء فُل ایکٹیویٹیز پریونشن ایکٹ) جیسے خطرناک قانون کا غلط استعمال ہے۔ ریاست جب بغیر مناسب ثبوت کے لوگوں کے خلاف دہشت مخالف قوانین کا استعمال کرتا ہے تب وہ ایک طرح کی دہشت پھیلا رہا ہوتا ہے۔ 28 اگست کو جس طرح گرفتاریاں ہوئیں، اس سے ہمیں فکر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولس کبھی بھی بغیر وارنٹ یا ہمیں سمجھ میں نہ آنے والی زبان میں کاغذات لے کر ہمارے گھر میں گھس سکتی ہے اور ہمیں گرفتار کر سکتی ہے۔ ہم پر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر سکتی ہے جن کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم بھی نہ ہو۔‘‘
بیان میں جسٹس چندرچوڑ کے بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جسٹس چندرچوڑ کے اقلیت والے فیصلہ نے ہمارے اسٹینڈ کو درست ٹھہرایا ہے۔ انداز یا قیاس کی بنیاد پر کسی کی آزادی کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ پولس جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے اور میڈیا ٹرائل کے ذریعہ کارکنان کو بدنام کر رہی ہے۔‘‘
اس بیان ے ساتھ اس کیس سے منسلک سپریم کورٹ کی وکیل ورندرا گروور نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن ضرور ہے لیکن اس سے کم از کم یہ بات صاف ہوئی ہے کہ عدالت نے انھیں عدالتی انصاف کی بھرپور گنجائش دی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم ابھی آگے کے متبادل تلاش رہے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔