’لگتا ہے حکومت انتظار کر رہی ہے کہ ہم سب مر جائیں‘ گنگا رام اسپتال کے دلبرداشتہ چیئرمین
ڈاکٹر رانا نے دلبرداشتہ ہو کر کہا کہ حکومت اس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب زیرو آکسیجن ہوگی اور سب مر جائیں گے۔ بازار میں آکسیجن سلینڈر نہیں ہیں، ہم کہاں سے لائیں۔
نئی دہلی: کورونا کی وبا کے اس خوفناک بحران کے دوران اسپتال میں داخلہ ملنا بھی زندگی کی حفاظت کی ضمانت نہیں ہے۔ ملک کے تمام اسپتالوں میں آکسیجن کی بھاری قلت ہے اور اس کی وجہ سے مریضوں کی جان جا رہی ہے۔ دہلی کے مایہ ناز سر گنگا رام اسپتال میں گزشتہ ایک ہفتہ سے آکسیجن کی قلت چل رہی ہے اور ہفتہ کے روز اسپتال کے چیئرمین نے صاف کہا ہے ان کے پاس صرف ڈیڑھ گھنٹے کی ہی آکسیجن باقی ہے۔
خیال رہے کہ 25 اپریل کو سر گنگا رام اسپتال میں آکسیجن کی کمی کے سبب 25 مریضوں کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اسپتال کے چیئر پرسن ڈاکٹر ڈی ایس رانا نے بتایا کہ ’’کل 25 مریضوں کی جان چلی گئی۔ ان کی صرف آکسیجن کی کمی سے ہی جن نہیں گئی، بلکہ کچھ اور بھی وجوہات تھیں۔ آکسیجن ان وجوہات میں سے ایک ہے۔ آج 21 مریضوں کی جان گئی ہے۔ اس بار بھی کئی کی جان آکسیجن کی کمی کی وجہ سے گئی ہے۔ ہم اس سے کیسے لڑیں سمجھ نہیں آ ہا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب، میں بھی مر جاؤں گا۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ’’فی الحال اسپتال کے پاس صرف 1.5 گھنٹے کی آکسیجن ہی باقی ہے اور آکسیجن کا لیول نیچے گر رہا ہے، وینٹی لیٹر کو مینولی چلانا پڑ رہا ہے، کیونکہ کوئی آپریشن نہیں ہے۔ ہمارا اسپتال ایسے نہیں چل پائے گا۔‘‘
گنگا رام اسپتال ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلایا جاتا ہے اور اس کی گنتی راجدھانی کے سب سے بہترین اسپتالوں میں ہوتی ہے۔ ہفتہ کی صبح اسپتال کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اسپتال میں ہر دن اوسطاً 10000 کیوبک میٹر آکسیجن صرف ہوتی ہے اور اسپتال کو کم از کم 11000 کیوبک میٹر آکسیجن درکار ہے، تاکہ پریشر برقرار رہے۔
ڈاکٹر رانا نے کہا کہ ’’ہمارے اسپتال میں اس وقت 560 مریض ہیں اور برابر والے میں 96 مریض ہیں لیکن ہمیں کبھی 500 کیوبک میٹر تو کبھی 1500 کیوک میٹر آکسیجن حاصل ہو پا رہی ہے۔ یہ صرف لو پریشر میں کچھ وقت کے لئے کام آتی ہے۔ جب تک ہمیں 3000 کیوبک میٹر سپلائی حاصل نہیں ہوگی، وینٹی لیٹر خودکار طریقہ سے نہیں چل سکتے۔ گزشتہ 13 گھنٹوں سے ہم وینٹی لیٹرز کو مینولی چلا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہر دو گھنٹے میں ہمیں کسی وی آئی پی کا فون آتا ہے، کہاں سے دیں ہم انہیں بیڈ! ہمارے تمام بیڈ بھرے ہوئے ہیں اور جو بیڈ فل ہیں ہم انہیں آکسیجن فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے ایڈمیشن بند نہیں کیے ہیں، لیکن اسپتال میں جگہ نہیں ہے۔ ہمیں لگا تھا کہ حالات بہتر ہوں گے لیکن لگاتار بگڑ رہے ہیں، ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ کریں تو کیا کریں!‘‘
ڈاکٹر رانا اس سلسلہ میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے گہار لگا چکے ہیں انہوں نے بتایا، ’’میں نے مرکز میں کسی سے رابطہ قائم کیا، نام نہیں بتاؤں گا لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے بلکہ دہلی حکومت کا کام ہے۔ مرکزی حکومت کے افسران کہتے ہیں کہ انہوں نے دہلی حکومت کو آکسیجن فراہم کر دی ہے اور اب دہلی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے کس طرح تقسیم کرتی ہے۔ مجھے اس طرح کے بے تکے جواب کی امید نہیں تھی۔ دہلی حکومت کو معلوم نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے۔ ہم نے رکن اسمبلی راگھو چڈھا سے رابطہ کیا، انہوں نے بھاگ دوڑ کر کے کچھ آکسیجن کا انتظام کیا، لیکن وہ ناکافی ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ آکسیجن لیول اسٹیبلائیز کرنے کے لئے بھی سپلائی درکار ہے۔
ڈاکٹر رانا نے کہا کہ ’’اب ہم کس سے رابطہ کریں؟ ہم نے نوڈل افسر کو فون کیا، کم از کم چار آئی اے اس افسروں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن 10 مرتبہ فون کرنے کے بعد ہی وہ جواب دیتے ہیں۔ جب بات ہوتی ہے تو کندھے اچکا دیتے ہیں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں! کہتے ہیں جب آکسیجن آئے گی تو ہمیں بھی مل جائے گی!‘‘
ڈاکٹر رانا سوال کرتے ہیں کہ ’’آخر شفافیت کیوں نہیں ہے؟ دہلی کو کتنی آکسیجن درکار ہے، کسی کو معلوم کیوں نہیں ہے؟ معلوم تو چلے کہ سپلائی میں دقت ہے یا تقسیم کاری میں! سبھی اسپتال آکسیجن کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دو ریاستوں کے بیچ بھی تنازعہ ہے۔ آکسیجن کے ٹینکر آ پا رہے ہیں۔ آخر حکومت مسئلہ کا کوئی حل کیوں نہیں نکال پا رہی۔‘‘
ڈاکٹر رانا نے دلبرداشتہ ہو کر کہا، ’’حکومت اس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب زیرو آکسیجن ہوگی اور سب مر جائیں گے۔ بازار میں آکسیجن سلینڈر نہیں ہیں، ہم کہاں سے لائیں۔ ہمیں ٹکڑوں میں آکسیجن حاصل ہو رہی ہے، جو ناکافی ہے۔ اب کس سے بات کریں۔ سب افسران بول رہے ہیں کہ کوشش کر رہے ہیں، لیکن آکسیجن تو نہیں آ رہی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔