گئو کشی کے نام پر بھیڑ کا جان لینا ’فطری عمل‘! 35 فیصد پولس اہلکار وں کا نظریہ

ایک سروے میں شامل تقریباً 72 فیصد پولس اہلکاروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بااثر لوگوں سے جڑے معاملوں کی جانچ میں انھیں ’سیاسی دباؤ‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

اسلاموفوبیا کوئی نئی چیز نہیں ہے اور دنیا کے کچھ ممالک میں یہ بیماری کچھ زیادہ ہی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن اب ایک ایسی رپورٹ سامنے آئی ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ہندوستان میں پولس محکمہ بھی کم ’اسلاموفوبیا‘ کا شکار نہیں ہے۔ ایک سروے رپورٹ نے یہ حیران کرنے والا پہلو ظاہر کیا ہے کہ ملک میں 50 فیصد پولس اہلکار مانتے ہیں کہ مسلمانوں کا جرم کی طرف فطری طور پر جھکاؤ ہوتا ہے۔ یہ سروے رپورٹ این جی او ’کامن کاز‘ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس نے حکومت کے لوک نیتی پروگرام کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی یافتہ سوسائٹی کے بارے میں پتہ لگانے کے لیے تیار کیا ہے۔

منگل کے روز یہ سروے رپورٹ سپریم کورٹ کے سابق جج جے. چیلامیشور کے ذریعہ ریلیز کی گئی جس میں کئی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جو حیران کرتی ہیں۔ اس رپورٹ میں 35 فیصد اہلکار یہ بھی مانتے ہیں کہ اگر بھیڑ کسی گئوکشی کے معاملے میں ملزم کو سزا دیتی ہے تو یہ فطری عمل ہے۔ پولس کے ذریعہ یہ سوچنا واقعی حیران کرتا ہے کیونکہ موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کے مدنظر پولس کا ایسا سوچنا موب لنچنگ کو فروغ ہی دے گا۔


یہ سروے ملک کی 21 ریاستوں اور 11000 پولس اسٹیشن کے 12000 پولس اہلکاروں اور ان کے گھر والوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ سروے میں شامل پولس اہلکاروں میں سے 37 فیصد کا یہ بھی ماننا ہے کہ چھوٹے موٹے جرائم کے لیے سزا دینے کا اختیار پولس کو ملنا چاہیے اور اس کے لیے قانونی ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ گویا کہ پولس اہلکار چاہتے ہیں کہ انھیں سزا سنانے کا حق حاصل ہو جائے جو کہ فی الحال ان کے پاس نہیں ہے۔

بہر حال، اس سروے رپورٹ میں گئوکشی کی طرح ہی عصمت دری کے ملزمین سے متعلق بھی ایک سوال پولس اہلکاروں سے پوچھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں 43 فیصد پولس اہلکاروں کا ماننا ہے کہ کسی عصمت دری کے ملزم کو بھی بھیڑ کے ذریعہ سزا دینا فطری عمل ہے۔ جواب سے ظاہر ہے کہ پولس یہ سمجھتی ہے کہ اگر کوئی شخص قانون توڑتا ہے اور پبلک پر اس کا اثر پڑتا ہے تو پکڑے جانے پر پبلک کے ذریعہ پیٹا جانا یا پھر اسے ہلاک کر دینا فطری عمل ہے۔


اس سروے رپورٹ میں ایک بہت اہم بات نکل کر سامنے یہ آئی ہے کہ کئی معاملوں میں پولس پر سیاسی دباؤ کچھ زیادہ ہی بنایا جاتا ہے۔ سروے میں شامل تقریباً 72 فیصد پولس اہلکاروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بااثر لوگوں سے جڑے معاملوں کی جانچ میں انھیں ’سیاسی دباؤ‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ پولس کیسز میں اپنے سیاسی تعلقات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Aug 2019, 1:10 PM