ہندوستانی فوجیوں کو ’کال سنٹر‘ کے ذریعہ پھنساتی تھی پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی

ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے پاکستانی خفیہ ایجنسی ISI کے ایک ایسے کال سنٹر کا انکشاف کیا ہے جس کا استعمال ہندوستانی فوجیوں کو ’ہنی ٹریپ‘ میں پھنسانے کے لیے کیا جاتا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک ایسے کال سنٹرل کے بارے میں پتہ کیا ہے جس کا استعمال ہندوستانی فوجیوں اور سیکورٹی فورسز کے جوانوں و افسران کو ’ہنی ٹریپ‘ میں پھنسانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ یہ کال سنٹر اسلام آباد سے 116 کلو میٹر دور جہلم شہر میں ہے۔ اس کال سنٹر کو چلانے والی کمپنی کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) ہے۔

انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) کے تعاون سے چلنے والا یہ کال سنٹر ہندوستانی سِم کارڈ کا استعمال کرتا تھا۔ یہ وہی سِم کارڈ ہوتے تھے جو اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے پاکستان جانے والے ہندوستان کے لوگوں، خصوصاً خواتین سے سرحد پر پاکستانی کسٹم محکمہ کے ذریعہ ضبط کیے جاتے تھے۔


اس سنسنی خیز ’ہنی ٹریپ‘ کے سلسلے میں دہلی پولس کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر ریاستوں کی پولس نے جب ملک گیر جانچ شروع کی تو ایسے 100 سے زائد سِم کارڈوں کا پتہ چلا۔ پاکستان کے سفر پر جانے والی ہندوستانی خواتین سے ضبط سِم کارڈ کا استعمال سرحد کے پار واقع کال سنٹروں میں کام کرنے والی پاکستانی خواتین کی پہچان چھپانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی سِم کارڈ کے ذریعہ سنگیتا مشرا، عائشہ رائے، نیتا سنگھ جیسے ناموں سے فیس بک پر فرضی ہندوستانی آئی ڈی بنائے گئے تھے۔

جہلم کے اس کال سنٹر میں کام کرنے والی لڑکیوں کو خاص طور سے اچھی ہندی بولنے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ آئی ایس آئی کے لوگوں کی مدد سے یہ لڑکیاں پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران کی تلاش کرتی تھیں اور بعد میں ان سے رابطہ قائم کرتی تھیں۔


چیٹ سے شروعات کرنے کے بعد یہ لڑکیاں فیس بک پر ویڈیو کال کر کے اسے ریکارڈ کر لیتی تھیں۔ اس کے بعد یہ لڑکیاں وہاٹس ایپ پر ان سے کچھ زیادہ ہی کھل کر باتیں کرنے لگتی تھیں۔ ہندوستانی افسروں کو لگتا تھا کہ وہ ہندوستانی لڑکیوں سے بات کرتے ہیں اور اس طرح وہ آئی ایس آئی کے کال سنٹر کے ذریعہ ’ہنی ٹریپ‘ میں پھنس جاتے تھے۔

دہلی پولس کے ذرائع نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب جاسوسوں نے دہلی کی ایک خاتون سے پوچھ تاچھ کی۔ خاتون کی عمر 30 سے کچھ ہی سال زیادہ رہی ہوگی۔ اس نے بتایا کہ وہ جب پاکستان گئی تھی تب پاکستانی کسٹم محکمہ نے ان سے اس کا سِم کارڈ اور فون دونوں ضبط کر لیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ’’جانچ کے دوران پتہ چلا کہ دہلی کے ہی موبائل اور اس کے سِم کارڈ کا استعمال جہلم شہر واقع آئی ایس آئی کے ذریعہ چل رہے پی ٹی سی ایل کے کال سنٹرل میں ہو رہا ہے۔‘‘


پولس افسر نے کہا کہ ’’خاتون کی باتوں سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ پاکستانی افسر جس ہندوستانی موبائل یا فون یا سِم کارڈ کے استعمال پر روک کی بات کر کے فون اور سِم ضبط کرتے ہیں، اسی سِم کارڈ اور فون کا استعمال پاکستان کی زمین پر ہو رہا ہے۔‘‘

ذرائع نے بتایا کہ شروع میں فوج کے جاسوسی محکمہ یعنی ملٹری انٹلیجنس کو اس کا پتہ اس وقت لگا جب ہندوستانی سیکورٹی فورس کے کچھ افسر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایسے اسکینڈل میں پھنس گئے۔ بعد میں جب ہندوستانی موبائل نمبروں کو ٹریک کیا گیا اور ہندوستان میں سِم کارڈ کے مالکوں کا پتہ چلا تب جا کر خفیہ ایجنسیوں کو آئی ایس آئی کے ذریعہ ہندوستانی افسران پر ڈورے ڈالنے کے اس عمل کی جانکاری ملی۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی سال اتر پردیش کے اینٹی ٹیررسٹ اسکوائڈ (اے ٹی ایس) نے فیس بک پر خواتین کی 125 فرضی آئی ڈی کا پتہ لگایا جن کا استعمال آئی ایس آئی نے ہندوستانی نیم فوجی دستہ اور فوج کے افسران کو ہنی ٹریپ میں پھنسانے کے لیے کیا تھا۔ انٹلیجنس بیورو (آئی بی) اور ملٹری ایجنسی نے فرضی اکاؤنٹ کا ڈاٹا اے ٹی ایس سے شیئر کیا تھا۔

برہموس ائیرو اسپیس انجینئر نشانت اگروال اور بی ایس ایف جوان اچیوتانند مشرا کو گزشتہ سال اکتوبر میں آئی ایس آئی کے ذریعہ ہنی ٹریپ میں پھنسائے جانے کے بعد ہندوستانی ایجنسیوں نے اپنا ڈاٹا دیگر ریاستوں کی پولس سے شیئر کیا۔


مذکورہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی لڑکیوں نے فیس بک اور وہاٹس ایپ کے ذریعہ ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے کئی دیگر جوانوں اور افسروں کو بھی پھسلایا ہے۔ اتر پردیش اے ٹی ایس کی طرح دہلی پولس ہندوستانی سیکورٹی فورسز کی فرینڈ لسٹ میں شامل سینکڑوں ایسی لڑکیوں کے فیس بک اکاؤنٹ کو کھنگال رہی ہے جو آئی ایس آئی سے ٹریننگ لے کر اس کے لیے کام کرتی تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔