تریپورہ میں ’عیسیٰ چڑھا مسجد‘ تعمیر نو کے بعد نمازیوں کے حوالے

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شرپسندوں کے خلاف کسی طرح کی قانونی کارروائی کا نہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے۔

نوتعمیر عیسیٰ چڑھا مسجد
نوتعمیر عیسیٰ چڑھا مسجد
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کا امتیازی وصف رہا ہے کہ وہ جو کہتی ہے اسے پورا کرتی ہے۔ اپنی اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس نے تریپورہ میں نہ صرف فساد متاثرین کی دادرسی کی بلکہ جو وعدہ یا یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کی تکمیل میں سرگرمی کے ساتھ مصروف ہے۔ چنانچہ پنچایت درگاہ بازار کے پاس واقع ’عیسی چڑھا مسجد‘ کی تعمیر نو کا کام مکمل ہو چکا ہے، اور آج اسے پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے لئے نمازیوں کے سپرد بھی کر دیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ 19 اکتوبر 2021 کی شب میں شر پسند عناصر نے متحد ہو کر مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی مسجدوں میں بھی آ گ لگا دی تھیں۔ اس کے نتیجہ میں یہ مسجدیں پوری طرح جل کر خاکستر ہو گئی تھیں۔ ان میں عیسیٰ چڑھا مسجد بھی شامل تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کا ایک نمائندہ وفد مولانا معصوم ثاقب، جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی قیادت میں جب وہاں گیا تھا تو مسلمانوں کے ساتھ مقامی ہندو برادری کے لوگوں نے بھی وفد کا گرم جوشی سے استقبال کیا تھا۔ پردھان اور ممبران نے وفد کو بتایا تھا کہ مسجد کو جلانے والے باہر کے لوگ تھے۔ اس وقت مسجد کے متولی نے وفد سے اس کی تعمیر نو کی درخواست کی تھی، اور آج خدا کا شکر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی کوشش اور تعاون سے کچھ مزید سہولتوں کے ساتھ یہ مسجد دوبارہ تعمیر ہو چکی ہے۔


ریاست کی دیگر متاثرہ مسجدوں کی تعمیر نو یا مرمت کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی، لیکن کاغذات کی کمی اور بعض قانونی پیچیدگیوں سے یہ کام ابھی شروع نہیں ہو پایا ہے۔ لیکن یقین ہے کہ جلد ہی ان تمام مسجدوں کی مرمت اور تعمیر نو کا کام بھی شروع ہو جائے گا۔ جمعیۃ علماء ہند نے فساد متاثرین کو مالی مدد دینے کا اعلان بھی کیا تھا تاکہ وہ اپنا کاروبار پھر سے شروع کر سکیں۔ اس ضمن میں آج ساگر علاقہ میں 10 دکانداروں کو فی دوکان پچاس ہزار روپے کی مالی مدد بذریعہ چیک کی شکل میں تقسیم کی گئی۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2021 میں بنگلہ دیش میں ہوئے واقعات کی آڑ میں فرقہ پرست تنظیموں نے تریپورہ میں اچانک مسلم اقلیت کو اپنی حیوانیت و بربر یت کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ یہ مذموم سلسلہ وہاں کئی روز تک جاری رہا تھا۔ اس دوران نہ صرف مسلم اقلیت کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا گیا بلکہ جگہ جگہ مذہبی عبادت گاہوں کو بھی آگ کے حوالہ کر دیا گیا تھا۔


اس موقع پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ شر پسندوں کے ہاتھوں تریپورہ کی مسلم اقلیت کو جو زخم پہنچے ہیں وہ بہت گہرے ہیں۔ یہ اسی وقت بھر سکتے ہیں کہ جب خاطیوں کو ان کے کئے کی سزا مل جائے۔ مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ تریپورہ کی سرکار خاطیوں کو سزا دینے سے دانستہ گریز کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے تریپورہ کی سرکار سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ریاست کے مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے اور خاطیوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرے۔ مگر اس سلسلہ میں اب تک مایوسی ہی ہا تھ لگی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریاستی سرکار خاطیوں کو سیاسی تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ایسے لوگوں کو اگر کھلا چھوڑ دیا گیا اور انہیں سیاسی تحفظ فراہم کیا گیا تو ان کے حوصلے مزید بڑھ سکتے ہیں اور وہ آئندہ بھی اس طرح کی مذموم حرکتوں سے ریاست میں امن و قانون کے لئے ایک مستقل خطرہ بن سکتے ہیں۔ خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک تب تک ترقی نہیں کر سکتا ہے جب تک کہ وہاں کی اقلیت کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے۔ کسی بھی قوم یا برادری کے خلاف امتیازی رویہ اپنا کر ملک کو ترقی کے راستہ پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ انصاف کے دو پیمانے ہرگز نہیں ہو سکتے۔ قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے۔ لیکن افسوس انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کر کے ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے والے شر پسندوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، بلکہ ملک کی اقلیتوں میں مسلسل ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کیا جار ہا ہے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے امن و استحکام کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ تریپورہ میں جو کچھ ہوا اس کی سچائی سامنے آ چکی ہے۔ اب تریپورہ سرکار کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان خاطیوں کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے جنہوں نے تریپورہ کے امن و چین میں نہ صرف خلل ڈالا بلکہ وہاں رہ رہے مسلمانوں کو اپنی حیوانیت اور بربریت کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض سیاست دان اکثریت کو اقلیت کے خلاف صف آراء کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا سہارا لینے لگے ہیں تاکہ آسانی سے اقتدار حاصل کر سکیں اور حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنا لیا ہے، لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے ہی چلا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات بہت دھماکہ خیز ہوتے جا رہے ہیں، ایسے میں ہمیں متحد ہو کر میدان عمل میں آنا ہوگا۔

مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ ہمارا اختلاف اور ہماری لڑائی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں صرف ان طاقتوں سے ہے جنہوں نے ملک کے سیکولر قدروں کو پامال کر کے ظلم و جارحیت کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں طرح طرح کے غیر ضروری ایشوز اٹھا کر مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آ رہا ہے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نئے نئے تنازعہ کھڑا کر کے مسلمانوں کو نہ صرف اکسانے کی کوششیں ہو رہی ہے بلکہ انہیں کنارے لگا دینے کی منصوبہ بند شازشیں ہو رہی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ مثال ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں آگے بھی اسی طرح کا صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں آئندہ بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اور مشتعل کرنے کی کوششیں کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدوجہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا وہ ایسی نفرت اور ظلم و ستم کا ہندوستان ہرگز نہیں تھا۔ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جس میں بسنے والے تمام لوگ نسل، برادری اور مذہب سے اوپر اٹھ کر امن و آشتی کے ساتھ رہ سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔