سی۔پلین گھوٹالہ: کمپنی مالک کے ساتھ مرکز کا 2 ہزار کروڑ کا معاہدہ!
وزیر اعظم نے جس واحد انجن کے سی-پلین میں سفر کیا اس کے مالک کا نام ابھی راز میں ہے۔ پلین کنیڈا سے کراچی کے راستہ ہندوستان پہنچا تھا، اس کا معائنہ اچھی طرح کیا گیا تھا یا نہیں یہ بھی ابھی صاف نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا جو سی-پلین زیر بحث ہے اس کا انتظام ایک ایسے کاروباری نے کیا ہے جس کے ساتھ مرکزی حکومت نے 2 ہزار کروڑروپے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ کی جس کمپنی سے یہ پلین منگایا گیا تھا اس کا صاف کہنا ہے کہ اس کے پاس جو بھی ایئر کرافٹ ہیں ان کے اصل مالکان اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔ اتنا ہی نہیں جس واحد انجن والے پلین پر سوار ہوکر مودی سابر متی کی لہروں پر اترے وہ پاکستان کے کراچی شہر سے ہو کر آیا تھا اور یہ بات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے کہ اس کا معائنہ اچھی طرح کر لیا گیا تھا یا نہیں۔
ان تین باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف مفادات کے تضاد کا معاملہ ہے بلکہ سلامتی کے حوالے سے بھی بہت بڑی لاپروائی برتی کی گئ ہے۔
در اصل وزیر اعظم نریندر مودی کے ’سی-پلین کرتب ‘ کا انعقاد کرنے والی کمپنی ’آئیکونک ایکتا وینچرس پرائیویٹ لمیٹڈ‘ نے مرکزی حکومت کے ساتھ ’سیاحت کی ترقی ‘ کے لئے 2 ہزار کروڑ کا معاہدہ کیا ہے۔ حالانکہ ماحولیاتی اور حفاظتی وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ کو حتمی منظوری ملنا ابھی باقی ہے لیکن خیال ظاہرکیا جا رہا ہے کہ چناوی تشہیر کے آخری دن مودی کو سی–پلین دستیاب ہی اسی لئے کرایا گیا کہ پروجیکٹ کو منظوری ملنے میں کوئی پریشانی پیش نہ آئے۔
کمپنی کے پروموٹر اور منیجنگ ڈائریکٹر ہمانشو پٹیل نے’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ان کی کمپنی گزشتہ چار سال سے واٹر اسپورٹس، ایکو ایڈوینچر اور گجرات کے بالائی علاقوں میں ’سیاحت کی ترقی ‘ کے پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔
ہمانشواس پروجیکٹ میں وزیر اعظم کی دلچسپی ظاہر کرنےکو اپنی ’خوش قسمتی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے تین سال قبل یعنی 2014 میں سی-پلین کا ممبئی میں ٹرائل کیا تھا۔ اس سلسلہ میں کمپنی نے 2016 میں منعقدہ انکریڈیبل انڈیا (بے مثال ہندوستان) پروگرام کے دوران مرکزی حکومت کے ساتھ 2 ہزار کروڑ کے معاہدہ نامہ پر دستخط کئے تھے۔ ‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کمپنی نے مرکز کے ساتھ 2 ہزار کروڑ روپے کا معاہدہ کیا اس کا قیام اور اس کا رجسٹریشن ہی ستمبر 2016 میں ہوا۔ علاوہ ازیں اس کے پاس محض ایک لاکھ روپے کا سرمایہ ہی تھا۔ایسی کمپنی کے ساتھ محض ایک سال میں ہی 2 ہزار کروڑ کا معاہدہ کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔
معلومات کے مطابق ’’آئیکونک ایکتا وینچرس پرائیویٹ لمیٹڈ ‘‘ کو پروجیکٹ کے تحت گجرات کے دھروئی ڈیم کو بین الاقوامی سیاحتی مرکز کے طور پر قائم کرنا ہوگا۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ دھروئی ڈیم کئی دوسرے اہم سیاحتی مراکز سے منسلک ہے اس لئے اس علاقہ میں سیاحت کی ترقی کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ سیاحوں کو احمد آباد سے دھروئی تک کے سی-پلین میں سفر کے لئے 2500 روپے خرچ کرنے ہوں گے۔
دھروئی وہی ڈیم ہے جہاں سابرمتی سے پرواز بھرنے کے بعد مودی کے سی-پلین کو لینڈ کرایا گیا تھا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ دھروئی ڈیم میں سی– پلین اتارنے کا فیصلہ کمپنی کے دباؤ میں لیا گیا تھا۔
اس پلین کے حوالہ سے مزید معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ جہاز امریکہ میں بینک آف یوٹا ٹرسٹی کے نام پر درج ہے۔ جس کا پتہ یوٹا کے سالٹ لیک سٹی میں بتایا گیا ہے۔ اس سے قبل یہ جہاز کیویسٹ ایئر کرافٹ کمپنی ایل ایس سی کے نام پر رجسٹرڈ تھا لیکن اگست 2016 میں اس کا مالکانہ حق بینک آف یوٹا ٹرسٹی کے نام کر دیا گیا۔ بینک آف یوٹا کی ویب سائٹ پر ایئر کرافٹ آپریشن اور لیز پر دینے کے جو ضوابط درج کئے گئے ہیں ان کے مطابق یہ ٹرسٹ ان جہازوں کو آپریٹ کرتا ہے جن کے مالکان اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
یہاں سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا یہ جہاز کسی شیل کمپنی کی ملکیت ہے؟ اگر ایسا ہے تو سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم ایسے جہاز میں کیوں سوار ہوئے جس کی ملکیت کو ہی چھپایا گیا ہو۔ اگر گجرات کے کاروباری ہمانشو پٹیل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس جہاز کا انتظام انہوں نے کیا ہے تو کیا یہ جہاز ان کی ملکیت ہے؟ لیکن ’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران ہمانشو نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
مودی کے سی-پلین کرتب کے تعلق سے پرینکا گاندھی واڈرا نامی ایک ٹوئٹر ہنڈل سے بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، حالانکہ اس ہینڈل کی تفصیلات میں صاف لکھا ہے کہ ’’یہ اکاؤنٹ پرینکا گاندھی کے مداحوں اور حامیوں کی طرف سے چلایا جا رہا ہے۔ اس ہینڈل کی طرف سے کئے گئے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے’’پردھان سیوک نے ایک سنگل انجن والے جیٹ سے پرواز بھری جو حفاظتی معیارکی خلاف ورزی ہے ساتھ ہی، پلین کنیڈا سے کراچی کے راستہ احمدآباد اتارا گیا تھا، تو کیا اس کی جانچ اچھی طرح سے کر لی گئی تھی۔ اس معاملہ کی بھی شروع تا آخرجانچ کرائے جانے کی ضرورت ہے۔
ایک دیگر ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ سی پلین میں بیٹھ کر وزیر اعظم سابر متی ندی میں اترے، جہاز امریکہ سے کراچی ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچا تھا۔
احمد آباد میں وزیر اعظم کا روڈ شو منسوخ ہونے سے ایک ہفتہ قبل 3 دسمبر کو یہ پلین کراچی میں تھا۔ پلین کے مالک کے طور پر ایک امریکی کمپنی کا نام سامنے آیا ہے، جس میں کسی ہندوستانی کمپنی کی کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ اسی ٹوئٹ میں کچھ تصاویر بھی دی گئی ہیں جن میں پلین کا پاتھ یعنی پرواز کا راستہ اور دیگر کئی تفصیلات دی گئی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی نے چناوی تشہیر کے آخری دن احمد آباد میں راہل گاندھی کا روڈ شو رد ہونے سے دو دن قبل مودی کے روڈ شو کی درخواست کی تھی۔ جبکہ یہ پہلے سے طے تھا کہ مودی کو روڈ شو نہیں سی-پلین کرتب دکھانا تھا۔
ان تمام حقائق کا انکشاف ہونے پر گجرات کی موجودہ اپوزیشن جماعت اور اس اسمبلی الیکشن کو سخت چیلنج دینے والی کانگریس نے کہا ہے کہ ’’مودی کا سی-پلین کرتب مفادات میں تضاد کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا اور دوسری طرف وہ چناؤ کے دوران ایسی کمپنی کے سی-پلین سے سفر کرتے ہیں جس کے ساتھ ان کی حکومت نے 2 ہزار کروڑ کے معاہدہ پر دستخط کئے ہیں۔
ادھر گجرات پردیش کانگریس کے صدر بھارت سولنکی نے کہا ’’گجراتی عوام چاہتی ہے کہ ان کے مستقبل کے حوالے سے مودی نے کیا کیا، ان پر بات کی جائے۔سی-پلین جیسے خواب سے لوگوں کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ‘‘
وہیں، گجرات کے سابق کانگریس ارجن موڑواڈیا کا کہنا ہے کہ ’’وزیر اعظم کا سی-پلین کرتب صرف مسائل سے دھیان ہٹانے کی کوشش ہے۔ ان کی حکومت نے 22 سالوں میں گجرات کی عوام کے لئے کیا کیا یہ انہیں بتانا چاہئے۔‘‘
مودی کے سی-پلین کرتب سے مفادات میں تضاد تو پیدا ہوا ہی ہے،ساتھ ہی وزیر اعظم کے عہدے کے وقار اور پروٹوکال کو بھی داؤ پر لگا دیاگیا۔ وزیر اعظم کا ایک انجن والے پلین پر سواری کرنا سلامتی کے پیش نظر بھی خطرناک تھا دوسرے مودی حکومت اور ان کے حامیوں کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں ہے کہ ہندوستان میں سی-پلین کا پہلی دفعہ استعمال کیا گیا ہے۔
مودی کے دعوؤں سے 7 سال قبل 2010 میں یو پی اے دور حکومت کے دوران ’جل ہنس‘ نام سے سی–پلین کی شروعات کی گئی تھی۔ عوام کے لئے ہیلی کاپٹرفراہم کرنے والی کمپنی ’پون ہنس‘ اور جزیرہ انڈمان ونکوبار انتظامیہ کی مشترکہ کاوشوں سے اس خدمت کو 2010 میں لانچ کیا گیا تھا۔ سابق شہر ی اور پرواز کے وزیر پرفل پٹیل نے اس پروجیکٹ کو سبز پرچم دکھایا تھا۔
اسی طرح 4 سال قبل 2013 میں کیرالہ حکومت نے سی-پلین منصوبہ تیار کیا تھا۔ حالانکہ ماہی گیر طبقہ کی ناراضگی کے پیش نظر اسے منسوخ کر نا پڑا تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ اومان چندڈی نے اس حوالہ سے ٹوئٹ کیا۔
اتنا ہی نہیں، آلٹ نیوز کا دعویٰ ہے کہ ایئرلائن اسپائس جیٹ نے حال ہی میں 9 دسمبر کو ممبئی کے گرگاؤں میں سی-پلین کا تجربہ کیا تھا۔ اس دوران وہاں پر مرکزی وزیر نتن گڈکری اور اشوک گنپتی جارو بھی موجود تھی۔ علاقائی نقل و حمل کو فروغ دینے کے لئے اسپائس جیٹ کا ایسے تقریباً 100 سی-پلین لینےکا ارادہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں تقریباً 14500 کلومیٹر کا بحری راستہ ہے جہاں سی-پلین کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سی-پلین کا استعمال نقل و حمل کو آسان بنانے کی سمت میں ایک اچھا قدم ہو سکتا ہے لیکن مودی حکومت اس منصوبہ کے ذریعہ کچھ مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں لگی ہے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Dec 2017, 5:36 PM