سعودی عرب: کیا ایسی ہوتی ہے اسلامی مملکت؟
زبیر احمد باری اپنی زندگی کے تقریباً 30 سال ریاض میں گزارنے کے بعد اب واپس ہندوستان آ گئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح کوئی چھوٹا سا کاروبار کرکے بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں۔
’’یہ میری زندگی کی دوسری ہجرت ہے۔زندگی کے بہترین 30سال ایک ملک میں گزارنے کے بعد اگر کسی شخص کو واپس اپنے ملک میں جاکر نئے سرے سے زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے تو وہ کس کیفیت سے گزرتا ہے اس کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے جو خود اس کیفیت سے گزرا ہو۔ میں آپ کو کیا سمجھا سکتا ہوں۔ میرے لئے یہ ایک سخت مرحلہ ہے اور فکر کی بات یہ ہے کہ اس سخت مرحلے سے مجھے 58 سال کی عمر میں نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے‘‘ زبیر احمد باری جو تقریباً 30سال اپنی زندگی کے ریاض میں گزارنے کے بعد اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے واپس ہندوستان آ گئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح کوئی چھوٹا سا کاروبار کرکے بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں۔ سعودی حکومت نےتیل کی قیمتوں میں زبردست کمی آنے کی وجہ سے اپنی معیشت کو پٹری پر بنائے رکھنے کے لئے کئی بڑے فیصلے لئے ہیں جن میں سے ایک بڑا فیصلہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں جو دوسرے ممالک کےلوگ ملازمت کر رہے ہیں ان پر ایک خاص فیس عائد کر دی ہے ۔ اس سال جولائی ماہ سے یہ فیس لاگو کی گئی ہے اور اس نئے احکام کے تحت ہر اس شخص کو جو سعودی عرب کا شہری نہیں ہےاور وہاں رہ رہا ہے اس کو ان افراد کے لئے ہر ماہ 100 ریال کی فیس ادا کرنی ہوگی جو اس کی کفالت میں ہیں یعنی اس کے بیوی بچے اور نوکر ۔ یہ فیس بڑھ کر آئندہ سال جولائی میں 200 ریال اور 2019 کی جولائی میں 300 ریال اور پھر ہر سال اسی طرح بڑھتی رہے گی ۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ وہاں رہ رہا ہے تو اس کو ہر ماہ 400 ریال کی یہ فیس دینی ہوگی جو آئندہ سال بڑھ کر 800ریال ہو جائے گی۔ سعودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد بڑے پیمانے پر لوگ یا تو اپنے بچوں کو وطن واپس بھیج رہے ہیں یا پھر نوکری چھوڑ کر خود بھی وطن واپس آ رہے ہیں۔
زبیر احمد باری جو سن 1986 سے ریاض کی ایک پرایئویٹ کمپنی میں ملازم تھے اور اب پورا جماجمایا گھر چھوڑ کر ہندوستان واپس آ گئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ’’ میری تنخواہ 4000 ریال تھی جس میں سے 1000 ریال مکان کے کرائے کے چلے جاتے تھے ، تین بچوں کی پڑھائی پر تقریبا 1500ریال خرچ ہو جاتے تھے اس کے بعد باقی رقم میں گھر کا خرچ چلتا تھا یعنی کچھ بھی جمع نہیں ہو پاتا تھا ۔ میری اہلیہ نے کچھ ماہ پہلے ایک خواہش ظاہر کی کہ بچوں کو پیّزا وغیرہ بازار سے منگانے میں کافی مہنگا پڑتا ہے کیوں نہ ہم ایک مائکرو ویو لے لیں اس مائکرو ویو کو خریدنے کے لئے پانچ ماہ تک بچت کرنی پڑی اس کے بعد وہ مائکرو ویو خریدا اور خریدنے کے چار ماہ بعد ہی سعودیہ کو چھوڑنا پڑا ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ضروری سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے مائکرو ویو وہیں چھوڑنا پڑا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم جیسے لوگ کس درد سے گزر رہے ہیں ‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین قیمتی سال اس ملک کو دئیے اور اس ملک(سعودی عرب) نے ہمارے بارے میں ایک بار بھی نہیں سوچا۔ افسوس لفط تو بہت چھوٹا ہے اس سارے معاملے کے اظہار کے لئے‘‘۔
تنویرالسلام جنہوں نے 18سال جدہ میں ملازمت کی اورکئی سال قبل وطن واپس آ گئے تھے۔ ان کا ماننا ہے کہ ’’تیل کی قیمتیں بھی ایک مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ ملک میں بادشاہت کے خلاف کوئی احتجاج نہ ہو، انسانی حقوق کی بات نہ ہو اس کےلئے شہریوں کے ذہن کے رخ کو موڑنے کی غرض سے خارجیوں کے خلاف ہر بادشاہ ایک نیا فرمان جاری کر دیتا ہے اس سے پہلے شاہ عبداللہ نے فیصلہ لیا تھا کہ کچھ مخصوص کاموں میں خارجیوں کو ملازمت نہیں دی جا سکتی، اب شاہ سلمان نے یہ فیصلہ لیا ہے ۔ اس سے دو فائدے ہیں ایک تو ملک پر سے آبادی کا بوجھ کم ہو گا اور دوسرا یہ کہ سرکاری خزانے میں ایک معقول رقم جمع ہو جائے گی، مگر اصل مقصد صرف اور صرف داخلیوں کے جذبات کو اپنے حق میں بنائے رکھنے کے لئے خارجیوں کا مدا بنانا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ بڑا تکلیف دہ عمل ہے اور جب ہم مغربی ممالک کی تنقید کرتے ہیں تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ان ممالک میں مخصوص وقت تک کوئی شخص رہ لیتا ہے تو وہ ملک ان اشخاص کو شہریت دے دیتاہے اور تمام بنیادی انسانی حقوق فراہم کرتاہے۔ سعودی عرب کہنے کو یہ اسلامی ملک ہے مگر ملک کی تعمیر اور ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ملازمین تاحیات غیر ملکی ہی رہتے ہیں اور وہ ان تمام حقوق سے محروم رہتے ہیں جو سعودی شہریوں کو میسر ہیں‘‘۔
تقریباً 30سال جدہ میں گزارنے کے بعد خالد صدیقی بھی موجودہ حالات کی وجہ سے اپنے وطن ہندوستان واپس آ گئے ہیں۔ زبیر احمد باری جنہوں نےوطن واپس آنے سے پہلے بچوں کی سائیکل اور دیگر کھلونے اپنے پڑوسی دوستوں کے بچوں کو تقسیم کر دئیے اور تنکا تنکا جوڑ کر جو گھر بنایا تھا اس کو الوداع کہہ کر واپس آ گئے ہیں وہ کہتے ہیں ’’سعودی حکومت کی زیادتیاں تو ہیں، لیکن ہم لوگ بھی وہاں سے واپس نہیں آنا چاہتے اور غلط طریقوں سے وہیں رہنا چاہتے ہیں‘‘۔
سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک میں بھی غیر ملکیوں سے اس طرح کی فیس لی جاتی ہے اور اس فیس سے وہاں کام کر رہے لوگوں کو ہی فائدہ ہوگا، یہ رقم ملک کی ترقی اورفلاح و بہبود پر ہی خرچ ہوگی جس کا فائدہ بلا تفریق سب کو ہی پہنچے گا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت تو خراب ہے لیکن سعودی حکومت کی خارجیوں کو لےکر جو پالیسی ہے وہ بھی انسانی حقوق یا اسلامی شعور سے میل نہیں کھاتی۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Oct 2017, 11:25 AM