بابری مسجد اراضی مالکانہ حقوق سے اسماعیل فاروقی فیصلہ کا تعلق نہیں: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے فیصلہ کی اہم باتیں:
1۔ سال 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ کہ ’مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا اہم جز نہیں‘ لینڈ ایکویزیشن کے حوالہ سے تھا لہذا اُس تبصرہ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
2۔ اسماعیل فاروقی فیصلہ میں کئے گئے تبصرہ سے بابری مسجد-رام جنم بھومی اراضی مالکانہ حقوق طے کرنے کے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
3۔ اسماعیل فاروقی فیصلہ کو از سرنو غور کرنے کے لئے وسیع تر بنچ کے پاس بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اسماعیل فاروقی معاملہ کیا ہے؟
ایودھیا میں کارسیوکوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے 7 جنوری 1993 کو آرڈیننس لاکر مسجد کی زمین کے پاس کی 67 ایکڑ زمین کو ایکوائرڈ کر لیا۔ اس ایکویزیشن میں زمین کا 120X80 فٹ کا وہ حصہ بھی تھا جہاں بابری مسجد موجود تھی اور جسے آج بابری مسجد-رام جنم بھومی احاطہ کہا جاتا ہے۔
مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کو اسماعیل فاروقی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اپنی عرضی میں کہا تھا کہ حکومت کسی مذہبی مقام کو ایکوائرڈ نہیں کر سکتی۔ اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا مسجد کی زمین کو بھی حکومت اگر چاہے تو ایکوائرڈ کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسماعیل فارقی فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے مسجد اراضی سمیت 67 ایکڑ زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم سنایا۔ اب ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں ہندو فریق کی جانب سے کہا گیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ اسماعیل فاروقی معاملہ کی روشنی میں فیصلہ سنا چکا ہے، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا یہاں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ کیا جانا چاہیے اور ایودھیا کی زمین ہندوؤں کو دی جانی چاہیے۔
ہندو فریق کی دلیل کے بعد مسلم فریق کے وکیل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اسماعیل فاروقی کیس میں اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح ہوئی ہے، یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا اہم جز نہیں ہے، لہذا سپریم کورٹ کی وسیع تر بنچ میں اس معاملہ کو بھیج کر فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ صاف کر دیا ہے کہ اسماعیل فارقی معاملہ صرف اور صرف لینڈ ایکویزیشن سے وابستہ تھا اور اس کا مسجد اراضی کے مالکانہ حقوق طے کرنے میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بابری مسجد-رام جنم بھومی اراضی مالکانہ حقوق معاملہ سماعت 29 اکتوبر سے
سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیل فاروقی فیصلہ میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ نماز کا مسجد میں پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لیکن وہ فیصلہ لینڈ ایکوزیشن کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ اس لئے بابری مسجد سے وابستہ مالکانہ حقوق کے مقدمہ پر اس فیصلہ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
واضح رہے کہ اسماعیل فاروقی معاملہ میں کہا گیا تھا کہ اگر لینڈ ایکویزیشن کیا جائے گا تو کوئی مذہبی مقام اس سے بچاؤ نہیں کر سکتی۔ اس فیصلے کے بعد بابری مسجد-رام جنم بھومی اراضی مالکانہ حقوق معاملہ کی سماعت کا راسہ صاف ہو گیا ہے، اب اس معاملہ کی سماعت 29 اکتوبر سے کی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے ایودھیا کے بابری مسجدم-رام جنم بھومی تنازعہ سے منسلک اس معاملہ پر فیصلہ سنا دیا ہے، جس میں یہ طے کیا جانا تھا کہ نماز کا مسجد میں پڑھنا اسلام کا لازمی جز ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی تین رکنی بنچ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ جسٹس اشوک بھوشن نے اپنا اور چیف جسٹس دیپک مشرا کا فیصلہ پڑھ کر سنایا جبکہ جسٹس نظیر نے اپنا فیصلہ علیحدہ سے پڑھا۔
جسٹس بھوشن اپنا اور چیف جسٹس اشوک بھوشن کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کو بڑی بنچ کے پاس بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 1994 کا جو فیصلہ آیا تھا ہمی اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ معاملہ صرف لینڈ ایکویزیشن سے وابستہ تھا اور اسی حساب سے فیصلہ دیا گیا ہے۔
فیصلہ پڑھتے ہوئے جسٹس اشوک بھوشن نے کہا کہ ہر فیصلہ الگ حالات میں ہوتا ہے لہذا فیصلے کا پس منظر جان لینا ضروری ہوتا ہے۔ جسٹس بھوشن نے کہا کہ گزشتہ فیصلہ میں یہ تو کہا گیا ہے کہ نماز کا مسجد میں ادا کرنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لیکن اس کے آگے ایک اور بھی جملہ کہا گیا ہے۔
حالانکہ جسٹس عبدلنظیر نے بنچ کے دوسرے ججوں کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا انہوں نے کہا کہ مذہبی مقامات پر عبادت کے معاملہ پر فیصلہ سنانے کے لئے اسے بڑی بنچ کے پاس بھیجنا چاہئے۔ جسٹس نظیر نے کہا کہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے مسجد اراضی مالکانہ حقوق پر جو فیصلہ سنایا تھا وہ 1994 کے اسماعیل فاروقی فیصلہ کی روشنی میں سنایا تھا۔ لہذا اس معاملہ کو وسیع تر بنچ کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔ بڑی بنچ کے پاس معاملہ کو بھیجنے سے بنچ کی اکثریت یعنی کہ دو ججوں انکار کر دیا جبکہ ایک جج اس کے حق میں تھے لہذا معاملہ کو وسیع تر بنچ کے پاس نہیں بھیجا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد کہ مسجد میں نماز ادائیگی کا معاملہ بڑی بنچ کے پاس نہیں بھیجا جائے گا، اب بابری مسجد-رام جنم بھومی مالکانہ حق کے معاملہ میں سماعت کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ اس معاملہ میں 29 اکتوبر سے سماعت کرے گا۔
سال 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام حکومت ہند کے معاملہ میں عدالت عظمی نے کہا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔ اب بابری مسجد کی زمین کے مالکانہ حق کے مقدمہ کی سماعت کے دوران مسلم فریق کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسماعیل فاروقی معاملہ میں اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح کی گئی ہے لہذا اس پر آئینی بنچ کے ذریعہ دوبارہ غور کئے جانے کی ضرورت ہے
عدالت عظمی کو اس پہلو سے فیصلہ کرنا ہے کہ 1994 کے آئینی بنچ کے فیصلہ کو دوبارہ جائزے کے لئے بڑی آئینی بنچ کو بھیجا جائے یا نہیں۔ اس معاملہ میں 20 جولائی کو گزشتہ سماعت کے بعد دیپک مشرا کی قیادت والی بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔
ادھر بابری مسجد-رام مندر تنازعہ بھی عدالت عظمی میں زیرالتوا ہے۔ سپریم کورٹ کویہ فیصلہ کرنا ہے کہ تنازعہ والی زمین پر مالکانہ حق کس کا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔