کمارا دسانائیکے کا سری لنکائی صدر بننا کیا ہندوستان کے لیے ایک چیلنج ہے؟

بائیں بازو کا ہونے کے باوجود دسانائیکے ہندوستان کے تحفظ کے سلسلے میں پہلے سے ہی سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے تحفظ کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر 'ایکس'</p></div>

تصویر 'ایکس'

user

قومی آواز بیورو

سری لنکا کے صدارتی انتخاب میں کمیونسٹ رہنما انورا کمارا دِسانائیکے شاندار فتح حاصل کرتے ہوئے ملک کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ وہ مارکس ازم اور لینن ازم کے حامی ہیں جس کے سبب مانا جاتا ہے کہ ان کا جھکاؤ چین کی طرف ہوگا اور ہندوستان کو ایک اور پڑوسی ملک کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہے کیونکہ دسانائیکے ہندوستان کے تحفظ کے سلسلے میں پہلے سے ہی کافی سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے تحفظ کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔

ہندوستان کے ہائی کمشنر سنتوش جھا نے سب سے پہلے سری لنکا کے نومنتخب صدر دِسانائیکے کو مبارکباد پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکساں ثقافت والے ملک آپس میں تعاون اور دونوں ملکوں کی خوشحالی بڑھانے کے لیے پابند ہیں۔


حالانکہ ہندوستان کا ماننا تھا کہ اگر رانل وکرما سنگھے یا پھر پریم داسا کی جیت ہوتی ہے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات زیادہ بہتر رہیں گے۔ ان کی جیت سے بحر ہند میں ہندوستان کے تحفظ کے مورچے پر آسانی ہوتی۔ ویسے دِسانائیکے جنتا ویموکتی پارٹی کے مخالف رخ کے باوجود ہندوستان نے انہیں مدعو کیا تھا۔ سری لنکا میں اقتصادی بحران کے بعد نوجوانوں میں ان کی مقبولیت کافی بڑھ گئی تھی۔ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر اور این ایس اے اجیت ڈوبھال نے نئی دہلی میں ان سے ملاقات بھی کی تھی۔

قابل ذکر ہو کہ پیر کو 55 سالہ کمارا دِسانائیکے صدر عہدے کا حلف لینے کے ساتھ ہی سری لنکا کے پہلے بائیں بازو کے صدر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔ گزشتہ بار 2019 کے انتخاب میں ان کی پارٹی کو صرف 3 فیصد ہی ووٹ ملے تھے لیکن اس بار انہوں نے 42.31 فیصد ووٹوں سے بڑی جیت حاصل کرکے تاریخ رقم کر دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔