کشمیر کی پہلی مسلم خاتون پائلٹ بننے کا تاج ارم حبیب کے سَر
ارم حبیب بتاتی ہیں کہ ’’سب یہ جان کر حیران رہتے تھے کہ میں کشمیری مسلم ہوں اور ہوائی جہاز اڑا رہی ہوں۔ لوگ کچھ بھی کہیں لیکن میں نے اپنے ہدف کوحاصل کرنے کے لئے آگے بڑھنا جاری رکھا۔‘‘
سری نگر: ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کو موقع ملے تو وہ ترقی کی فضا میں زبردست اڑان بھرسکتے ہیں ۔ یہ ثابت کیا ہے بسااوقات سورش سے متاثررہنے والے ’جنت ارضی‘کی ارم حبیب نے۔ جموں و کشمیر میں ایک پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والی ارم حبیب ریاست کی پہلی مسلمان خاتون پائلٹ بن گئی ہے۔ 30 سالہ ارم اگلے ماہ گو ایئر جوائن کریں گی۔ گزشتہ سال اپریل میں21 سالہ عائشہ عزیز ہندوستان کی سب سے کم عمر اسٹوڈنٹ پائلٹ بنی تھی۔
قدامت پرست کشمیری معاشرے سے تعلق رکھنے والی ارم حبیب کی اس کامیابی کاسفرآسان نہیں رہا۔ ارم کے والد کشمیر میں سرکاری اسپتالوں کو سرجیکل سامانوں کی سپلائی کرتے ہیں۔ خاندانی ذرائع نے بتایاکہ بچپن سے ہی ارم کا خواب پائلٹ بننا تھا اور اس کے لئے اس نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ دہرادون سے فورسٹری میں گریجویشن کے بعد اس نے شیر کشمیر یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کیا۔ اس کے بعد ارم نے سال 2016 میں امریکہ کے ایک فلائٹ اسکول سے تربیت حاصل کی۔
اس وقت ارم دہلی میں ہے اور کمرشیل پائلٹ بننے کے لئے کلاسیز لے رہی ہے۔ اس سلسلے میں ارم نے بتایا کہ انہوں نے امریکہ میں تقریباً 260 گھنٹے جہاز اڑانے کا تجربہ حاصل کیا ہے۔ انہیں امریکہ اور کینیڈا میں کمرشیل جہازاڑانے کا لائسنس مل چکا ہے۔آبائی علاقے کے حالات اور قدامت پرستانہ سوچ پربات کرتے ہوئے ارم حبیب نے کہا کہ زیادہ تراوقات ہمارا آبائی وطن ناگفتہ بہ حالات کی گرفت میں رہتاہے۔ باوجوداس کے وہاں کے لڑکے اور لڑکیاں تعلیم کے میدان میں زبردست کامیابی حاصل کررہی ہیں اورمختلف میدانوں میں اپنی مہارت کا لوہامنوارہی ہیں۔ ارم نے مزیدبتا یا کہ سب کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میں کشمیری مسلم ہوں اور ہوائی جہاز اڑا رہی ہوں۔ لیکن میں نے اپنے ہدف کوحاصل کرنے کے لئے آگے بڑھنا جاری رکھا۔
یہ اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں 50 کشمیری خواتین کئی گھریلو اور بین الاقوامی ایئرلائنس کےعملے میں شامل ہو چکی ہیں ۔ارم کی کامیا بی کودیکھتے ہوئے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ کشمیری لڑکیوں نے پڑھائی میں لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔علاقے کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجودبے روزگار ہیں جس کی وجہ سے ان کے بھٹکنے کااندیشہ رہتا ہے۔ایسی صورت میں حکومت کوچاہئے کہ اس علاقے کے لئے خاص طورپرروزگارکے مواقع فراہم کرائے تاکہ یہ نوجوان اپنی مہارت سے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔