انٹرویو:ویدانتی کے کہنے پر پرمود کرشنم رام مندر پر مسلم رہنماؤں سے بات کریں گے
پرمود کرشنم نے کہا ’’رام مندر معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ حکومت مندر تعمیر کے تئیں سنجیدہ ہے، وہ صرف لوگوں کے جذبات بھڑکانے کا کام کرتی ہے۔‘‘
اترپردیش کے سنبھل میں واقع ’کلکی پیٹھ‘ کے بانی آچاریہ پرمود کرشنم مسلمانوں میں کافی مقبول ہیں اور وہ ایودھیا کے بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ کا بھی پُرامن حل نکالنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سنجیدہ اور حساس مسئلہ کا حل رائے عامہ سے ہونا چاہیے کیوںکہ عدالتی فیصلے کے بعد ایک فریق کو مایوسی ہو سکتی ہے۔ آچاریہ پرمود کرشنم کا خیال ہے کہ ملک میں نفرت پھیلانے کی بیماری پیدا ہو گئی ہے اور اس بیماری کا علاج ملکی مفاد میں نہایت ہی ضروری ہے۔
پیش ہیں آچاریہ پرمود کرشنم سے کئی گئی بات چیت کے اہم اقتباسات:
سوال: انتخابات نزدیک آنے کے ساتھ ہی رام مندر معاملہ ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہے، یہاں تک کہ عدالت کے تئیں بھی عدم اطمینان ظاہر کیا جا رہا ہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: دیکھیے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور ہندوستان کے ہر باشندے سے وابستہ بھی ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا کیوں نہ ہو۔ طویل مدت گزر چکی ہے، عدالت کو بھی فیصلہ سنانے میں دقتیں آ رہی ہیں۔ اس معاملہ کے دو پہلو ہیں ایک تو قانون و عدالت اور دوسرا عقیدہ۔ میرا خیال ہے کہ عقیدے کے معاملات عدالت سے حل نہیں ہوتے بلکہ بات چیت سے حل ہوتے ہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ دونوں فریقین اس مسئلہ پر ایک ساتھ بیٹھیں اور مفاہمت کی کوشش کریں۔ فیصلہ اگر عدالت سے آئے گا تو ایک فریق خوش ہوگا اور دوسرے کو مایوسی ہوگی، ہم ایک ساتھ رہتے ہیں اور اگر برابر میں رہنے والا خوش نہیں ہے تو ہم بھی کیسے خوش ہو سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ بات چیت سے حل ہونا تھا لیکن گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے حکومت ہند نے اس کے تئیں پہل نہیں کی، اگر حکومت پہل کرتی تو کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلتا۔
آپ کو کیا لگتا ہے، کیا اس معاملہ میں مسلم فریق کا احترام کیا جا رہا ہے؟
کچھ سیاسی رہنماؤں نے اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ وہ صبح اٹھتے ہی مسلمانوں کو گالی دینا شروع کر دیتے ہیں، انہیں غدار قرار دیتے ہیں اور ہر طرح سے ان کی دل آزاری کرتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہندوستان کا کوئی مسلمان غدار ہے اگر ایسا ہوتا تو پھر انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی سب مل کر کیوں لڑتے۔ کچھ پارٹیاں ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بولتی ہیں، اب کچھ ایسی بھی جماعتیں پیدا ہو گئی ہیں جو ہندوؤں کو گالیاں دیتی ہیں۔ اس طرح کی قدامت پسندی ملک کو کمزور کر رہی ہے۔
آپ مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں، کیا آپ کو کبھی ایسا لگا کہ مسلمان رام مندر تعمیر کی مخالفت کریں گے؟
نہیں، مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔ مجھے آج تک کوئی مسلمان ایسا نہیں ملا، میں نے علماء اور تصوف سے وابستہ لوگوں سے لے کر مدرسہ کے طلباء تک سے بات کی ہے لیکن مجھے نہیں لگا کہ کوئی بھی شری رام کے خلاف ہے۔ مسلمان رام کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ ان کی عزت کرتے ہیں۔ کسی مسلمان نے آج تک یہ نہیں کہا کہ اگر رام مندر تعمیر ہوگا تو وہ اس کی مخالفت کریں گے۔ دراصل اس مسئلہ کے حل کے لئے مسلمانوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
کیا بی جے پی کے لوگ ایک منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو رام مندر کی راہ میں رخنہ ثابت کر کے ولِن ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
یہ لوگ لیمو کی طرح ہیں جہاں پڑ جائیں گے پھاڑ دیں گے، یہ مشری کی طرح نہیں ہیں جو جذب ہو جاتی ہے۔ یہ فطرت کی باتیں ہیں، یہ پیدا ہی تقسیم کی بنیاد پر ہوئے ہیں ان سے زیادہ امید نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے ہم دوسرے لوگوں کو بیٹھائیں گے۔ ہندو اور مسلمانوں کا بہت قریبی رشتہ ہے دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے، اس لئے اس معاملہ کا پُر امن حل ضروری ہے۔
کیا اس مسئلہ کے حل کے لئے آپ نےکوئی منصوبہ تیار کیا ہے؟
رام جنم بھومی نیاس کے سینئر رکن اور سابق رکن پارلیمنٹ رام ولاس ویدانتی نے مجھ سے بات کی ہے، انہوں نے مجھ سے مسلمانوں سے بات کرنے کے لئے کہا ہے۔ دراصل وہ مانتے ہیں کہ جو لوگ مسلمانوں سے بات کر رہے ہیں وہ مؤثر نہیں ہیں، میں اس حوالہ سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ظفریاب جیلانی، مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمیعۃ علما ہند، ملی کاؤنسل اور دیگر مسلم تنظیموں سے بھی بات کروں گا۔
بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ کے حوالے سے حکومت کے رویہ پر آپ کا کیا خیال ہے؟
ان کو رام مندر بنانا ہی نہیں، اگر بنانا ہوتا تو 2015 میں بناتے، 16 میں بناتے یا پھر 17 میں بناتے۔ بی جے پی حکومت کی منشا ہے کہ یہ معاملہ لمبا کھنچتا رہے اور جھگڑا ہوتا رہے۔ یہ لوگ تین طلاق پر بل لاتے ہیں اور مسلمانوں سے پوچھتے بھی نہیں، یہ ایس سی ایس ٹی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بدل دیتے ہیں، آدھی رات کو نوٹ بندی کا اعلان کر دیتے ہیں، یہ جو مرضی ہوتی وہ کرتے ہیں لیکن انہوں نے اتنے سالوں میں ایک بار بھی مندر بنانے کا نام نہیں لیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Nov 2018, 5:09 PM