مہاراشٹر سڑک پروجیکٹ میں ہوا 10 کروڑ روپے کا گھوٹالہ، مہایوتی حکومت نے خاص کمپنیوں کو پہنچایا فائدہ: کانگریس

الیکٹورل بانڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے کہا کہ پہلے ’چندہ دو، دھندا لو‘ منصوبہ چل رہا تھا جسے سپریم کورٹ نے روک دیا، اب پیسے بٹورنے کے لیے نئے نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس لیڈر پون کھیڑا</p></div>

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس لیڈر پون کھیڑا

user

قومی آواز بیورو

مہاراشٹر میں اسمبلی انتخاب قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں نے حکمراں طبقہ پر اپنا حملہ تیز کر دیا ہے۔ اس درمیان کانگریس نے ریاست کے مختلف سڑک پروجیکٹس میں 10 ہزار کروڑ روپے گھوٹالہ کا انکشاف کیا ہے۔ کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ مہایوتی حکومت نے ضابطوں کو بدل کر دو خاص کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔

کانگریس میں میڈیا و تشہیر ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین پون کھیڑا نے دہلی واقع کانگریس ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ 10 ہزار کروڑ روپے مہاراشٹر کی عوام کے ہیں، جو حکومت کو ٹیکس کی شکل میں دیے گئے ہیں۔‘‘ الیکٹورل بانڈ منصوبہ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’پہلے ’چندہ دو، دھندا لو‘ منصوبہ چل رہا تھا جسے سپریم کورٹ نے روک دیا۔ جب سے عدالت نے الیکٹورل بانڈ منصوبہ کو روکا ہے، تب سے پیسے بٹورنے کے نئے نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ جب انفراسٹرکچر کے ٹنڈر نکلتے ہیں تو اس کے کئی ضابطے ہوتے ہیں، جنھیں کئی گائیڈلائنس کو توجہ میں رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ لیکن مہاراشٹر میں ان سبھی ضابطوں یا پیمانوں کو بدل دیا گیا۔‘‘


کھیڑا کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر ریاستی سڑک ڈیولپمنٹ کارپوریشن (ایم ایس آر ڈی سی) نے ویرار-علی باغ ملٹی ماڈل کاریڈور، پونے رنگ روڈ وغیرہ شاہراہ پروجیکٹس کے لیے قیمتوں کی بولی کھولی۔ ایم ایس آر ڈی سی کے اصولوں کے مطابق کسی بھی ایک کمپنی کو 2 سے زیادہ پروجیکٹ نہیں مل سکتے، لیکن دو کمپنیوں کو 4-4 پروجیکٹ دے دیے گئے۔ ان پروجیکٹس میں غار بنانے کا کام صرف 10 فیصد ہے، پھر بھی پروجیکٹ کا نام ہی غار کے نام سے کر دیا گیا تاکہ ان کمپنیوں کو کام دیا جا سکے۔ کانگریس لیڈر نے دعویٰ کیا کہ یکساں پروجیکٹ کے لیے این ایچ اے آئی کی فی کلومیٹر تعمیر لاگت کی بنیاد پر ان 8 پروجیکٹس کی حقیقی لاگت صرف 10087 کروڑ روپے ہونی چاہیے تھی۔ مہاراشٹر میں اس لاگت کو دوگنا کر دیا گیا اور مہاراشٹر حکومت نے 20990 کروڑ روپے کی ادائیگی کی۔ پون کھیڑا نے اسے مہایوتی حکومت کے ذریعہ کی گئی ایک بڑی لوٹ قرار دیا۔

کھیڑا نے پریس کانفرنس میں یہ بھی جانکاری دی کہ الیکٹورل بانڈس کے ذریعہ 13 فیصد چندہ مہاراشٹر سے وصول کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایک وقت ’ڈی کمپنی‘ تھی، لیکن آج مودی راج میں ’بی کمپنی‘ آ گئی ہے جو مہاراشٹر کو لوٹ رہی ہے۔‘‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کھیڑا نے کہا کہ اپریل 2023 میں ایم ایس آر ڈی سی نے پونے رنگ روڈ پروجیکٹ کے لیے کوٹیشن کی درخواست (آر ایف کیو) طلب کرنا شروع کیا، جسے ٹنل پروجیکٹ کی شکل میں متعارف کیا گیا تھا۔ آر ایف کیو کے لیے مختلف فرموں نے درخواست دی۔ ایسا لگتا ہے کہ ان پروجیکٹس کو کسی عجیب وجہ سے ٹنل پروجیکٹ کی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔ کانگریس لیڈر نے دعویٰ کیا کہ جون 2023 میں آر ایف کیو درخواست حاصل کرنے کے بعد ایم ایس آر ڈی سی نے پھر سے بولی کھولی اور پتہ چلا کہ 28 فرموں نے درخواست جمع کیے تھے۔ ان 28 فرموں کا جائزہ دسمبر 2023 تک مکمل ہو گیا، جس میں 18 فرم اگلے دور کے لیے اہل پائے گئے۔ ان 18 فرموں میں سے ایک کمپنی کوالیفائی ہوئی جس نے جولائی 2023 میں الیکٹورل بانڈ میں عطیہ دیا تھا۔


کھیڑا یہ بھی بتاتے ہیں کہ جنوری 2024 میں ایم ایس آر ڈی سی نے اہل پائے گئے 18 فرموں کے لیے 900 دنوں کے کنسٹرکشن ٹائم کے ساتھ بولی مدعو کی۔ انھیں اپریل 2024 میں 12 فرموں سے 26 بولیاں حاصل ہوئیں۔ یہ توجہ دینے والی بات ہے کہ ہر پیکیج کی تعمیر کے لیے سب سے کم بولی ایم ایس آر ڈی سی کے اندازے سے بہت زیادہ تھی۔ یہاں ایم ایس آر ڈی سی کے پاس دو متبادل تھے کہ یا تو اپنا بجٹ بڑھا کر بڑی بولی والی کمپنیوں کو کام شروع کرنے کا کانٹریکٹ دے، یا پھر پورا عمل رد کر کے نئی بولی طلب کی جائے۔ لیکن ایم ایس آر ڈی سی نے ان کمپنیوں کو ان کی بڑی لاگت کے باوجود کانٹریکٹ دے دیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔