صنعتی الکحل پیداوار: سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو دیا جھٹکا، 9 رکنی آئینی بنچ نے ریاستوں کے حق میں سنایا فیصلہ

آئینی بنچ نے کہا کہ صنعتی الکحل پیداوار پر قانون بنانے کی ریاستی طاقت کو نہیں چھینا جا سکتا، مرکز کے پاس اس معاملے میں ریگولیٹری طاقت کا فقدان ہے۔ جسٹس بی وی ناگ رتنا نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ نے صنعتی الکحل کی پیداوار کے معاملے میں مرکزی حکومت کو جھٹکا دیتے ہوئے ریاستی حکومتوں کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 9 ججوں کی آئینی بنچ نے 7 ججوں کی بنچ کے ذریعہ دیئے گئے فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ صنعتی الکحل پیدوار پر قانون بنانے کی ریاستی طاقت کو نہیں چھینا جا سکتا۔ بنچ نے کہا کہ مرکز کے پاس صنعتی الکحل کی پیداوار پر ریگولیٹری طاقت کا فقدان ہے۔ یہ فیصلہ آئینی بنچ نے 8:1 کی اکثریت سے سنایا گیا ہے۔

واضح ہو کہ سال 1997 میں 7 ججوں کی بنچ نے اپنے فیصلے میں مرکزی حکومت کو صنعتی الکحل کی پیداوار میں ریگولیٹ کرنے کا حق دیا تھا۔ سال 2010 میں اس معاملے کو 9 ججوں کی ایک بنچ کے پاس جائزہ کے لئے بھیجا گیا۔ 9 ججوں کی آئینی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’’صنعتی الکحل انسانی استعمال کے لیے نہیں ہے۔‘‘


بنچ نے مزید کہا کہ ’’آئین کی ساتویں شیڈول کے تحت ریاستی فہرست کا اندراج 8 ریاستوں کو نشہ آور شراب کی تیاری، نقل و حمل، خرید و فروخت پر قانون بنانے کا حق دیتا ہے۔‘‘ دوسری طرف مرکزی حکومت کے اختیار والی صنعتوں کی فہرست یونین لسٹ کی انٹری 52 اور کنکرنٹ لسٹ کی انٹری 33 میں دی گئی ہے۔ کنکرنٹ لسٹ کے موضوعات پر مرکزی اور ریاستی مقننہ دونوں کو قانون بنانے کا اختیار ہے، لیکن مرکزی قانون کو ریاست کے قانون پر ترجیح دینے کی سہولت ہے۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی 9 ججوں کی آئینی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ اس بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس رشی کیش رائے، جسٹس ابھے ایس اوکا، جسٹس بی وی ناگ رتنا، جسٹس منوج مشرا، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس اُجّول بھوئیاں، جسٹس ستیش چندر شرما، جسٹس آگسٹین جارج مسیح شامل تھے۔ بنچ میں صرف جسٹس بی وی ناگ رتنا نے اکثریت کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔