حکومت کی آواز میں آواز ملا رہے چیف جسٹس، اِندو ملہوترا کی تقرری کوٹھہرایا جائز
کالجیم کے ذریعہ بھیجے گئے دو میں سے صرف ایک نام کی سپریم کورٹ کے جج عہدہ پر تقرری کی منظوری کے بعد ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس معاملے میں دیپک مشرا نے کھل کر حکومت کا دفاع کیا ہے۔
ملک کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے جمعرات کو حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے کالجیم کی سفارش کے بعد بھیجے گئے ججوں کے ناموں میں سے اپنی مرضی کا جج منتخب کر کے اس کی تقرری کرے۔
دراصل سپریم کورٹ کے 100 وکیلوں نے چیف جسٹس سے گزارش کی تھی کہ وہ سینئر وکیل اندو ملہوترا کو سپریم کورٹ کا جج تقرر کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے بھیجے گئے صدر کے پروانے پر روک لگا دیں۔ لیکن چیف جسٹس نے اس عرضی کے جواب میں جو کچھ کہا وہ نہ صرف غیر تصوراتی ہے بلکہ اس کا کوئی جواز بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حکومت جسٹس کے ایم جوسف کو پروموشن دے کر سپریم کورٹ بھیجنے کے فیصلے پر ازسر نو غور کرنا چاہتی ہے تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’اگر چار نام بھیجے گئے اور اس میں سے حکومت نے صرف دو ہی نام کو منظور کیا ہے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اب یا تو سارے نام منظور کرو یا سارے نام خارج کرو؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ایسے میں سپریم کورٹ کام کس طرح کرے گا؟
ماہرین قانون نے چیف جسٹس کی اس دلیل پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ انھوں نے حوالہ دیا ہے کہ کالجیم اور کالجیم کے ذریعہ طے کیا گیا میمورینڈم آف پروسیڈر یعنی عمل کی تجویز، دونوں ہی میں واضح ہے کہ حکومت کالجیم کے ذریعہ بھیجے گئے ناموں میں سے اپنی مرضی سے کوئی نام منظور یا خارج نہیں کر سکتی ہے۔ کالجیم کا میمورینڈم آف پروسیڈر گزشتہ سال جولائی سے حکومت دبا کر بیٹھی ہے۔
گوپال سبرامنیم کی تقرری کے عمل میں چیف جسٹس اور کالجیم کے درمیان یہ تقریباً طے ہو گیا تھا کہ حکومت کالجیم کے ذریعہ طے کیے گئے ناموں میں سے مرضی کے نام نہیں منتخب کر سکتی۔ ایک مشہور قانون داں نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت میں کہا کہ ’’حکومت یا تو سارے نام منظور کرتی ہے یا خارج۔ یہ انتظام اس لیے ہے کیونکہ اس سے جج حکومت کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور اس لیے بھی کیونکہ اگر ایسا ہونے دیا گیا تو حکومت ججوں کی سینئرٹی میں رد و بدل کر سکتی ہے۔ ایسے میں عدالتی آزادی کے لیے کالجیم کے ذریعہ بھیجے گئے ناموں کا اعتبار بنائے رکھنا لازمی ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس کالجیم نے کے ایم جوسف اور اندو ملہوترا دونوں کے ناموں کی سفارش کی تھی۔ موجودہ قوانین کے مطابق یا تو حکومت دونوں ناموں کو مان لے یا دونوں کو نامنظور کر دے۔ حکومت اپنی مرضی سے کسی کو نہیں چن سکتی۔ ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اِندو ملہوترا کیس تقرری میں حکومت کے پاس کالجیم کی قانونی سفارش نہیں ہے۔ اور اِندو ملہوترا کو جج عہدہ کا حلف دلانا غیر قانونی ہوگا۔
اس معاملے پر ایک سینئر وکیل نے کہا کہ اگر اِندو ملہوترا کی تقرری کو قانونی جامہ پہنانا ہے تو کالجیم کو ایک بار پھر بیٹھنا ہوگا اور صرف انہیں کے نام کی سفارش حکومت کے پاس بھیجنی ہوگی۔ اس معاملے پر 100 وکیلوں کی عرضی پر سماعت کے دوران عدالت میں موجود صحافیوں کا کہنا ہے کہ حالانکہ اِندو ملہوترا کو حلف نہ دلانا آئینی جواز سے غلط ہوگا، لیکن سوال وہی ہے کہ کیا مرضی کے جج چننے سے عدالتی آزادی پر انگلی نہیں اٹھے گی؟ اس سلسلے میں گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل اِندو ملہوترا کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے اور جسٹس کے ایم جوسف کے نام کو نظر انداز کیے جانے پر وکیلوں نے زبردست ناراضگی ظاہر کی۔ مشہور وکیل اندرا جے سنگھ نے تو اِندو ملہوترا سے اپیل کی کہ وہ جمعہ کو ہونے والے حلف نامہ میں شامل نہ ہوں۔ انھوں نے وکیلوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اس غیر قانونی تقرریوں کو روکیں۔ انھوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’’تنہا اِندو ملہوترا کو جج مقرر کرنے کے لیے کالجیم نے کوئی سفارش نہیں کی ہے، ایسے میں ان کی تقرری غیر قانونی ہے۔ انھیں تقرر کرنے کے لیے کالجیم کو پھر سے بیٹھ کر صرف ان کے نام کی سفارش کرنی ہوگی۔ کیا چیف جسٹس عدلیہ کی آزادی کے لیے قدم اٹھائیں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔