اندور: شہر کو بھکاریوں سے آزاد کرنے کی مہم، ہوٹل میں ملا 22 گداگروں کا ایک گروپ، سبھی حیران

افسر نے بتایا کہ بھیک مانگنے والوں کو کاؤنسلنگ کرنے کے بعد ان کی آبائی ریاست بھیج دیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے بھکاریوں کو شیلٹر نہیں دینے کی لوگوں کو سخت ہدایت دی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

مدھیہ پردیش کے افسران نے اندور شہر میں بھیک مانگنے والے 11 بچوں سمیت 22 گداگروں کے ایک گروپ کو راجستھان میں ان کے اصل مقام پر واپس بھیج دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے چونکانے والی بات یہ ہے کہ ان بھکاریوں کا گروپ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ محکمہ خواتین اور اطفال ترقی کے ایک افسر نے بتایا کہ بھیک مانگنے والوں کا ایک گروپ شہر کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس میں 11 بچے اور اتنی ہی تعداد میں خواتین شامل تھیں۔ وہ دن بھر شہر میں الگ الگ جگہوں پر بھیک مانگتے تھے اور رات کو ہوٹل میں لوٹ آتے تھے۔

افسر نے ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھیک مانگنے والوں کو آبائی ریاست واپس بھیجنے سے پہلے ان کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ اس کے بعد شہر کے سبھی ہوٹلوں، لاج اور دیگر شیلٹروں کے مالکان کو وارننگ دی گئی ہے کہ وہ بھیک مانگنے والے لوگوں کو اپنے یہاں نہیں رکھیں، ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔


سماجی انصاف و تفویض اختیارات کی مرکزی وزارت نے ملک کے 10 شہروں کو بھکاریوں سے آزاد کرنے کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ اندور بھی ان میں سے ایک شہر ہے اور مقامی انتظامیہ نے شہر میں بھیک مانگنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اندور سے اب تک بھیک مانگنے کا کام کرنے والے 100 لوگوں کو آباد کیا جا چکا ہے۔

غور طلب رہے کہ مدھیہ پردیش کے کئی شہروں میں گداگری روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جا رہی ہے۔ اندور، بھوپال اور گوالیار سمیت تمام شہروں میں سرکاری سطح پر یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد بھیک مانگنے والوں کو مین اسٹریم میں شامل کیا جانا بتایا جا رہا ہے۔ بھیک مانگنے پر روک لگانے کے لیے اندور انتظامیہ کافی سختی برت رہی ہے جس کے تحت انتظامیہ بھیک دینے والوں پر بھی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی چوک چوراہوں پر اگر سامان بیچنے والے نابالغ سے اگر کوئی کچھ خریدتا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ اس سلسلے میں اندور انتظامیہ کافی پہلے ہی حکم جاری کر چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔