ہندوستان نے مذہبی آزادی سے متعلق امریکی رپورٹ کو کیا خارج

امریکہ کی سالانہ رپورٹ پر جوابی حملہ کرتے ہوئے ہندوستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’’ہم اپیل کریں گے کہ جانبدارانہ نظریہ کی بنیاد پر کیے جانے والے ایسے تجزیہ سے بچنا چاہیے۔‘‘

ہندوستان۔امریکہ، تصویر آئی اے این ایس
ہندوستان۔امریکہ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

امریکی محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی پر اپنی سالانہ رپورٹ گزشتہ دنوں جاری کی، جس پر ہندوستان میں سخت اعتراض کیا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے اور عبادتگاہوں پر حملے بھی بڑھے ہیں۔ ہندوستان کی طرف سے اس رپورٹ کو سرے سے خارج کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی سخت لہجے میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ووٹ بینک کا ایجنڈا نہ چلائے، اور اپنا گھر سنبھالے۔

دراصل امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جو بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ’’ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، جہاں الگ الگ مذاہب کو ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ وہاں حال کے دنوں میں لوگوں پر اور عبادت گاہوں پر حملے کے معاملے بڑھے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں الگ الگ معاملوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتانے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی نہیں ملتی ہے۔ خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کے کچھ معاملوں کو پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں غیر ہندوؤں کو سوشل میڈیا پر ہندو اور ہندوتوا پر تبصرہ کرنے کو لے کر پولیس کے ذریعہ گرفتار کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں الگ الگ سیاسی ہستیوں کے بیانات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔


امریکہ کی اس سالانہ رپورٹ پر جوابی حملہ کرتے ہوئے ہندوستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’’ہم اپیل کریں گے کہ جانبدارانہ نظریہ کی بنیاد پر کیے جانے والے ایسے تجزیہ سے بچنا چاہیے۔ یہ افسوسناک ہے کہ بین الاقوامی رشتوں میں ووٹ بینک کی سیاست کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم گزارش کرتے ہیں کہ تعصب پر مبنی اور یکطرفہ نظریات کو اس رپورٹ میں شامل نہیں کیا جائے۔ ہندوستان میں سبھی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، انھیں پوری مذہبی آزادی دی جاتی ہے۔ ان کے حقوق انسانی کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ بات چیت میں ہم ہمیشہ ہی نسلی تشدد، خاص طبقہ پر حملہ کرنے یا بندوق کلچر کے ایشو کو اٹھاتے رہے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔