ہریانہ کی بی جے پی حکومت پر بدعنوانی کا الزام، آزاد رکن اسمبلی کی حمایت واپسی
ایم ایل اے بلراج کنڈو نے شیرے کی خرید-فروخت میں 3300 کروڑ کے گھوٹالے کا الزام لگایا اور سی ایم کھٹّر کو دستاویزی ثبوت سونپتے ہوئے الٹی میٹم دیا تھا کہ اس کی جانچ نہیں کروائی تو وہ حمایت واپس لے لیں گے
ہریانہ حکومت بنے بمشکل ابھی 100 دن ہوئے ہیں کہ اسے پہلا بڑا جھٹکا لگ گیا ہے۔ روہتک کے میہم سے آزاد امیدوار بلراج کنڈو نے سرکار سے حمایت واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت پر بڑا حملہ کرتے ہوئے کنڈو نے کہا کہ بدعنوانوں کے ساتھ کھڑی اس حکومت کو حمایت دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کنڈو کے اس اعلان کے ساتھ ہی جن نایک جنتا پارٹی کے 10 اور سات آزاد اراکین اسمبلی کی بیساکھی پر چل رہی بی جے پی حکومت کے لیے مشکلوں کی شروعات ہو گئی ہے۔
ہریانہ اسمبلی میں جمعرات کو گورنر کے خطبہ پر بحث کا جواب دینے کے دوران ہی رکن اسمبلی بلراج کنڈو کا وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر آمنا سامنا ہو گیا۔ وزیر اعلیٰ کے چہیتے روہتک سے سابق رکن اسمبلی اور گزشتہ حکومت میں کو آپریٹیو معاملوں کے وزیر رہے منیش گروور کے خلاف تقریباً چار ہزار کروڑ کی سنگین بدعنوانی کو لے کر رکن اسمبلی بلراج کنڈو نے محاذ کھول رکھا ہے۔
چینی ملوں میں دکھائے گئے 3300 کروڑ کے خسارہ کو بلراج کنڈو بڑا گھوٹالہ بتا رہے ہیں۔ شوگر ملوں سے شیرے کی خرید و فروخت میں ہوئے اس بڑے گھوٹالے کو لے کر بلراج کنڈو نے وزیر اعلیٰ سے مل کر دستاویزی ثبوت بھی سونپے تھے۔ ساتھ ہی اعلان کیا تھا کہ حکومت نے اگر جانچ کروا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں کیا تو وہ چنڈی گڑھ میں ٹینٹ گاڑ کر دھرنا دیں گے۔ ساتھ ہی حکومت کو الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر اس نے جانچ نہیں کروائی تو وہ اس سے اپنی حمایت واپس لے لیں گے۔
سابق کو آپریٹیو وزیر منیش گروور کے تحت رہے محکمہ میں شوگر ملوں سے شیرے کی خرید و فروخت میں ہوئے گھوٹالے پر رکن اسمبلی میں جواب دینے کے لیے وزیر اعلیٰ شاید تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ کنڈو کے لگاتار حملوں سے پہلے ہی مشکل میں نظر آ رہے وزیر اعلیٰ نے جیسے ہی شیرے کی فروخت پر بولنا شروع کیا، اسمبلی کی حرارت بڑھنے لگی۔ سابق کو آپریٹو ویز کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات کے ساتھ گزشتہ حکومت پر یہ بھی الزام لگا تھا کہ اس نے اسی شخص کو وزیر بنا دیا جو شیرے کا کاروبار کرتا تھا۔
اس دوران وزیر اعلیٰ کھٹّر پوری طرح سے منیش گروور کے دفاع میں نظر آئے۔ وزیر اعلیٰ کھٹر نے کہا کہ کیا کوئی شخص کسی تجارت میں ہے تو اسے اس محکمہ کا وزیر نہیں بنایا جا سکتا۔ اس پر کنڈو نے اسمبلی میں اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ جی کے بولنے کے بعد انھیں دو منٹ کا وقت اس موضوع پر بولنے کے لیے دیا جائے۔ کنڈو کے ٹوکنے پر وزیر اعلیٰ تھوڑا غصے میں آ گئے، لیکن کنڈو بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
وہیں وزیر اعلیٰ کھٹّر نے بدعنوانی کے الزامات کو سرے سے خارج کر دیا جس کے جواب میں کنڈو نے کہا کہ میں نے آپ کو پورے ثبوت دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر ہمارے ثبوت غلط نکل جائیں تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ وزیر اعلیٰ بدعنوانی کو جسٹیفائی کر رہے ہیں۔ مجھے اس حکومت سے بہت امید تھی۔ پھر تو مجھے حکومت کو حمایت دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘
اس درمیان وزیر اعلیٰ کھٹّر اپنی بات لگاتار کہتے رہے۔ اپوزیشن بنچ سے بھی تقریباً سبھی اراکین اسمبلی اپنی سیٹ سے کنڈو کی حمایت میں کھڑے ہو گئے تھے۔ شور شرابے کے درمیان کنڈو کے وزیر اعلیٰ کو لگاتار ٹوکنے کے دوران وزیر اعلیٰ نے یہ بات بھی بول دی کہ ’’ہاں اس مسئلہ پر میں کلین چٹ دیتا ہوں‘‘۔ وزیر اعلیٰ نے ساتھ ہی کنڈو سے یہ بھی کہا کہ آپ کے پاس اور متبادل کھلے ہوئے ہیں۔ آپ عدالت بھی جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد اسمبلی کے باہر آ کر میڈیا کے سامنے بلراج کنڈو نے حکومت سے حمایت واپسی کا اعلان کر دیا۔ کنڈو نے کہا کہ کل میں گورنر اور اسپیکر کے پاس جا کر حکومت سے حمایت واپسی کا خط سونپ دوں گا۔
اس سے قبل اسمبلی میں وقفہ سوالات کے بعد ہونے والے وقفہ صفر کو ختم کرنے پر خوب ہنگامہ ہوا۔ اسپیکر کا کہنا تھا کہ وقفہ صفر ختم کرنا غلط ہے۔ حزب مخالف پارٹی کے لیڈر بھوپندر سنگھ ہڈا نے کہا کہ ایک گھنٹے کی جگہ نصف گھنٹہ ہی وقفہ صفر چلا لیں، لیکن اسے ختم نہ کریں۔
اس پر بھی جب اسپیکر نہیں مانے تو کانگریس کے سبھی اراکین اسمبلی نے ہڈا کی قیادت میں اسمبلی سے واک آؤٹ کر دیا۔ کانگریس اراکین اسمبلی نے ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے بھی لگائے۔ پھر گنے کی قیمت کو لے کر توجہ مبذول کرانے کی تجویز پر شروع ہوئی بحث کے دوران حکومت کی ایشوز سے بھٹکانے کی کوشش پر بھی پورا اپوزیشن حملہ آور ہو گیا۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ حکومت نے گزشتہ پانچ سال کے دوران محض 30 روپے فی کوئنٹل گنے کی قیمت بڑھائی ہے، جب کہ گنے کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ وزیر زراعت کے ذریعہ دوسری فصلوں کے ایم ایس پی میں ہوئے اضافہ کو بتانے پر بھی اپوزیشن مشتعل ہو گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Feb 2020, 9:31 AM