عدلیہ کی آزادی کا مطلب ہمیشہ حکومت کے خلاف فیصلے دینا نہیں: چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ

چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا، ’’عدلیہ کی آزادی کا مقصد ہمیشہ حکومت کے خلاف فیصلے دینا نہیں ہے۔ کچھ پریشر گروپس میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے عدالتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں تاکہ وہ ان کے حق میں فیصلے دیں‘‘

<div class="paragraphs"><p>چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ / آئی اے این ایس</p></div>

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے پیر کو ’انڈین ایکسپریس گروپ‘ کے ایک پروگرام میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بار حکومت کے خلاف فیصلہ دیا جائے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بعض پریشر گروپس میڈیا کے ذریعے عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے حق میں فیصلے کیے جائیں۔

چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ عدلیہ کی روایتی طور پر آزادی کا مطلب حکومت کے اثر و رسوخ سے بچنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عدلیہ کی آزادی میں یہ اہم ہے کہ جج اپنی ضمیر کی آواز سنیں اور قانون و آئین کے مطابق فیصلے کریں۔ انہوں نے اس بات پر اعتراض ظاہر کیا کہ اگر عدلیہ کا فیصلہ حکومت کے حق میں آئے تو اسے عدلیہ کی آزادی کے منافی سمجھا جاتا ہے۔


انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ گروپ عدالتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں اور ایسے ماحول کی تشکیل کرتے ہیں کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہ آئے تو عدلیہ کو غیر جانبدار قرار نہیں دیا جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں اس طرز فکر سے اختلاف ہے، کیوں کہ جج کو اپنی ضمیر کی آواز سن کر فیصلہ کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا، ’’جب فیصلہ حکومت کے خلاف ہوتا ہے اور الیکٹورل بانڈ اسکیم کو منسوخ کر دیا جاتا ہے تو عدلیہ آزاد ہوتی ہے اور اگر فیصلہ حکومت کے حق میں ہوتا ہ ے تو عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھنے لگتے ہیں، یہ میری آزادی کا مطلب نہیں ہے۔‘‘

چیف جسٹس نے اس پر بھی روشنی ڈالی کہ جب وزیراعظم نریندر مودی ان کے گھر پر گنپتی پوجا کے لیے آئے تو اس پر تنقید کی گئی، مگر ان کا خیال ہے کہ اس میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان سماجی تقریبات میں ملاقاتوں کا مطلب عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی ملاقاتوں میں عدالتی معاملات زیر بحث نہیں ہوتے بلکہ ذاتی اور سماجی امور پر گفتگو ہوتی ہے۔


چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ عدلیہ پر اعتماد کے لیے سیاسی نظام میں پختگی ضروری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدالتی فیصلے عوام کے سامنے ہوتے ہیں اور ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان انتظامی سطح پر ہونے والی بات چیت کا عدالتی فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جمہوریت میں طاقت کی تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ پالیسی سازی حکومت کا کام ہے جبکہ عدلیہ کے معاملات میں ایگزیکٹو مداخلت نہیں کر سکتی۔ جب تک یہ فرق واضح ہے، عدلیہ اور ایگزیکٹو کی ملاقات میں کوئی مسئلہ نہیں۔ چیف جسٹس چندرچوڑ 10 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور جسٹس سنجیو کھنہ نئے چیف جسٹس ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔