میوات کے لوگوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگنے کا حق کس کو ہے؟
میوات کے دس ہزار بہادروں نے انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی میں ہنستے ہنستے جان قربان کر دی تھی۔ شہید ہونے والے زیادہ تر میو مسلمان تھے اور انہیں سے آج حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگا جارہا ہے۔
ہریانہ اور راجستھان میں آنے والے میوات میں یکے بعد دیگرے کئی موب لنچنگ کے واقعات پیش آنے کے سبب یہ علاقہ شہ سرخیوں میں ہے۔ قبل زیں نیتی آیوگ کی طرف سے ہریانہ میں آنے والے میوات (ضلع نوح) کو ملک کا پسماندہ ترین ضلع قرار دیا گیا ہے، اس وقت بھی یہ علاقہ سرخیوں میں تھا۔ ملک کے سب سے کم خواندگی کی شرح والے علاقوں میں شامل میوات کے رہائشی پہلو خان، تعلیم، عمر محمد اور اکبر کو گائے کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے۔ عمر محمد کا تعلق الور ضلع سے تھا جو راجستھان کے میوات میں شامل ہے۔ میوات مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں میو مسلمان سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ میو طبقہ کے نام پر ہی اس علاقہ کو میوات کہا جاتا ہے۔ مسلم اکثریتی ہونے کی وجہ سے ہی یہ علاقہ ہندو انتہا پسندوں کو کھٹکتا رہتا ہے۔ کچھ ہندو تنظیمیں تو اس علاقہ کو ’چھوٹا پاکستان‘ بھی کہتی ہیں۔
حالانکہ تاریخ میں ذرا پیچھے جائین تو معلوم ہوتا ہے کہ میوات کے دس ہزار بہادروں نے انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی میں ہنستے ہنستے جان قربان کر دی تھی۔ شہید ہونے والے زیادہ تر میو مسلمان تھے اور آج انہیں سے حب الوطنی کا ’ثبوت‘ مانگا جا رہا ہے۔
گڑگاؤں گزٹمیر کے مطابق میوں نے 1800 کے پہلے سے ہی انگریزوں کی ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ سنہ 1803 میں انگریز مراٹھا جنگ کے دوران میو جنگجوؤں نے دونوں افواج کو نقصان پہنچایا تھا اور لوٹ پاٹ کی تھی۔ انگریز اس سے کافی ناراض تھے اور تبھی سے میواتیوں کو سبق سکھانے کا موقع تلاش کر رہے تھے۔
سال 1806 میں نگینہ کے نوٹکی گاؤں کے میواتیوں نے مولوی عوض خاں کی قیادت میں انگریزوں سے لوہا لیا۔ اس ہار سے انگریز گھبرا گئے اور دہلی کے ریزیڈنٹ سیکٹن نے سنہ 1807 میں ایک خط کے ذریعہ اپنے افسران کو ہدایت دی کہ میواتیوں سے مفاہمت کر لینی چاہئے۔ حالانکہ یہ انگریزوں کی ایک چال تھی اور وہ صحیح وقت کا انتظار کر رہے تھے اور وہ موقع انہیں نومبر 1857 میں حاصل ہوا۔
مورخ اور اکھل بھارتیہ شہید سبھا کے چیئرمین شرف الدین میواتی کہتے ہیں کہ 1842 میں میوات کا محصول 11 لاکھ 14 ہزار طے کیا گیا جو کہ فصل کی پیداوار سے بھی کہیں زیادہ تھا اور اس کا اعتراف خود لارڈ کننگھم نے کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 10 مئی 1857 کو میواتی سپاہی چاند خان نے انگریزوں پر گولیاں برسا دی تھیں جس کے بعد بغاوت کی آگ ملک بھر میں پھیل گئی تھی۔
مہارشی دیانند یونیورسٹی روہتک سے میوات کی بغاوت پر ریسرچ کر چکیں شرمیلا یادو کا ماننا ہے کہ 20 ستمبر 1857 کو انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کی نظر اب میوات میں موجود میو باغیوں پر تھی۔ شرمیلا کی ریسرچ کے مطابق دہلی پر قبضہ کے ایک سال تک انگریزی فوج نے میوات میں تشدد برپا کیا۔ 8 نومبر 1857 کو انگریزوں نے میوات کے سوہنا، تاؤڑو، گھاسیڑا، رائسینا اور نوح سمیت سینکڑوں گاؤں میں قتل و غارت کیا۔ انگریزوں کی کماؤں بٹالین کی قیادت لیفٹیننٹ ایچ گرانٹ کر رہے تھے۔ یہ دستہ کئی گاؤں کو تباہ کرتا ہوا گاؤں گھاسیڑا تک جا پہنچا۔ 8 نومبر کو گھاسیڑا کے کھیت میں انگریز اور میواتیوں کے بیچ زبردست جنگ ہوئی۔
گاؤں گھاسیڑا کے 157 میواتی اس جنگ میں شہید ہوئے لیکن جوابی حملہ میں انہوں نے انگریز افسر میک فرسن کا قتل کر دیا۔ 19 نومبر 1857 کو میوات کے بہادروں کو دبانے کے لئے بریگیڈیر جنرل سوراج، گڑگاؤں رینج کے ڈپٹی کمشنر کلی فورڈ اور کیپٹن ڈومنڈ کی قیادت میں ٹوہانا، جیند پلاٹونوں کے علاوہ بھاری توپ خانہ سپاہیوں کے ساتھ میوات کے روپڑاکا، کوٹ، چلی مالپوری پر زبردست حملہ بول دیا۔ اس دن اکیلے گھاسیڑا سے 425 میواتی بہادروں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اس دوران انگریزوں نے میوات کے سینکڑوں گاؤں میں آگ لگا دی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران انگریزوں نے تین ہزار افراد کو یا تو پھانسی دی یا گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ حالانکہ مورخین کا خیال ہے کہ اس دوران دس ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے۔
1857 کے غدر کے ان شہدا کی یاد میں میوات ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 2007 میں 12 گاؤں میں شہید میناریں تعمیر کرانے کا کام شروع کیا تھا تاکہ لوگ اپنے پر وقار ماضی کو یاد رکھ سکیں۔ حالانکہ 13 یادگاریوں میں سے محض 9 کا کام ہی ابھی تک مکمل ہو سکتا ہے۔ مورخ محمد ارشد نے بتایا کہ بتایا کہ روپڑاکا گاؤں کے 425 شہدا کی یاد میں سال 1983 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ بھجن لال اور اس وقت کے ممبر پارلیمنٹ چودھری رحیم خان اور رکن اسمبلی اظمت خان نے ش’ہید اسمارک‘ تعمیر کرایا تھا۔
مارچ کے آخری ہفتہ میں نیتی آیوگ نے ملک کے پسماندہ 101 اضلاع کی فہرست جاری کی۔ اس فہرست کے مطابق میوات پسماندہ ترین قرار دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ اس فہرست میں ہریانہ کا کوئی دوسرا ضلع شامل نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت دنوں ہی شعبوں میں میوات کی حالت قابل رحم ہے۔ اس ضلع کی مجموعی خواندگی کی شرح 56 فیصد جبکہ خواتین کی محض 36 فیصد ہے۔ ضلع کے 70 فیصد بچوں میں خون کی کمی ہے اور محض 27 فیصد بچے ایسے ہیں جن کی ٹیکہ کاری عمل میں لائی گئی ہے۔ یہاں کا کسان بمشکل سال میں ایک فصل پیدا کر پاتا ہے اور اس کا دام بھی صحیح نہیں مل پاتا۔ ہریانہ کے دیگر اضلع کے مقابلہ میوات میں سب سے زیادہ گائے پالی جاتی تھی لیکن موب لنچنگ کے واقعات کے بعد وہ بھی ٹھپ ہونے کی کگار پر ہے۔
گڑگاؤں سے علیحدہ ہو کر میوات ہریانہ میں 21واں ضلع قائم کیا گیا۔ اب اسے سرکاری ریکارد میں ضلع نوح کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2014 میں چوٹالا حکومت نے اس کا نام ستیہ میو پورم رکھ دیا گھا۔ پھر سال 2005 میں ہڈا حکومت نے اس کا نام پھر سے میوات رکھ دیا لیکن اب کھتر حکومت نے اس کا نام پھر سے نوح کر دیا ہے۔ ہریانہ حکومت میں وزیر رہے آفتاب احمت کہتے ہیں کہ علاقہ کے لوگ ستلج جمنا لنگ نہر، میوات کینال اور ریلوے اسٹیشن کا دہائیوں سے انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقہ میں بنیادی سہولیات جیسے پانی، بجلی اور نقل و حمل کا بحران ہے۔ میو طبقہ کے علاوہ بھی میوات ضلع میں 36 برادریاں موجود ہیں۔ لنچنگ کے واقعات سے پہلے تک ہندو مسلم تعلقات کافی خوشگوار تھے اور اب لوگ روزگار کے مواقع کو لے کر زیادہ فکر مند ہیں۔ آفتاب کا کہنا ہے کہ میو طبقہ مزاج سے باغی ہے اور اکثر کسی کے ووٹ بینک میں فٹ نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں میوات کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
میو طبقہ مشرف با اسلام ہونے کے بعد بھی ایک زمانہ تک ہندو روایات پر عمل کرتا رہا تھا۔ گائے پروری سے بھی میواتیوں کا گہرا ناطہ ہے اور اسیے خاندان بھی علاقہ میں موجود ہیں جن کے پاس پانچ سو گائیں ہیں۔ یہاں تک کہ بیٹیوں کی شادی میں بھی گائے دینے کا رواج ہے۔ یکم اپریل 2017 کو مسلم گائے پرور پہلو خان، 12 نومبر 2017 کو ڈیری کسان عمر محمد جبکہ 6 دسمبر 2017 کو گائے کاروباری تعلیم حسین کو کارروائی میں قتل کر دیا گیا۔ حال ہی میں 21 جولائی 2018 کو گائے پرور اکبر خان کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ ان واقعات کے بعد سے میوات میں دہشت کا ماحول ہے۔
میوات کے نگینہ، جھمراوٹ، چادن، پاٹکھوری جیسے کئی مسلم اکثریتی گاؤں ہیں جہاں کے خاندانوں کے پاس 500 سے لے کر ایک ہزار تک گائیں ہیں۔
مورخین کے مطابق بٹوارے کے دوران خود مہاتما گاندھی نے میوں کو پاکستان جانے سے روک لیا تھا۔ آزادی کے بعد میواتیوں کے ساتھ ہو رہے ظلم و ستم اور زبردستی پاکستان بھیجنے کے معاملہ کو لے کر یاسین خان گاندھی جی سے ملے جس کے بعد وہ میوں سے ملنے 19 دسمبر 1947 کو میوات کے گھاسیڑا گاؤں پہنچے اور حفاظت کی یقین دہانی کرائی، اس کے بعد یہاں کے لوگوں نے ہجرت نہیں کی۔
میو پنچایت کے سربراہ شیر محمد کہتے ہیں کہ سیاسی مفاد کے چلتے کچھ مخصوس لوگ میو طبقہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہر میو کے گھر میں گائے ہیں لیکن حالات ایسے بنا دئے گئے ہیں کہ بیچنا تو دور کی بات کوئی گائے کا علاج کرنے کے لئے بھی گھر سے باہر نہیں لا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے اچھا ہے کہ حکومت قانون بناکر اس پر پابندی لگا دے۔ حالانکہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ علاقہ میں گئو اسمگلر موجود ہین اور ان پر روک تھام لگنی چاہئے۔
میوات کا اپنا ایک موسیقی گھرانہ بھی ہے جس کی پہچان دنیا بھر میں ہے۔ شرف الدین میواتی کہتے ہیں کہ میواتی مسلمان سوفی سلسلہ کے زیادہ قریب تھے حالانکہ اب کافی تبدیلی بھی آئی ہے۔ میواتی موسیقی گھرانہ کی بندیاد کھگے نظیر نے رکھی تھی۔ مسلم اکثریتی علاقہ میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے اس موسیقی کے گھرانہ کی گائیکی میں ہندو بھکتی کا اثر بھی ہے۔ اس کے گلوکار آج بھی گائیکی کی شروعات بھجنوں سے ہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ پندت جسراج اس گھرانہ کے موجودہ سب سے بڑے فنکار ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈت ابھینکر بھی اس گھرانہ سے ہی آتے ہیں۔
(انکت فرانسس کا یہ مضمون نیوز 18 پر ہندی میں شائع ہو چکا ہے۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 Aug 2018, 7:34 PM