لوک سبھا میں داغداروں کی تعداد میں اضافہ، 29 فیصد کے خلاف سنگین فوجداری مقدمات درج
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 43 فیصد سیاستدانوں نے بتایا کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں اور 29 فیصد نے کہا کہ ان کے خلاف سنگین فوجداری مقدمات درج ہیں
نئی دہلی. گزشتہ دہائی میں ملک کی لوک سبھا میں داغداروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات جیتنے والے 543 اراکین میں سے 162 (30 فیصد) نے اپنے حلف ناموں میں معلومات دی تھیں کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں، جبکہ 76 ارکان پارلیمنٹ (14 فیصد) نے کہا تھا کہ ان کے خلاف سنگین فوجداری مقدمات درج ہیں۔
دوسری طرف سال 2019 کے انتخابات کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ حالات میں بہتری نہیں آئی۔ 2019 کے انتخابات میں 43 فیصد نے بتایا کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں اور 29 فیصد نے کہا کہ ان کے خلاف سنگین فوجداری مقدمات درج ہیں۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے مطابق سال 2019 میں جہاں فوجداری مقدمات والے امیدواروں کے جیتنے کا امکان 15.5 فیصد تھا، جبکہ جن امیدواروں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے ان کے الیکشن جیتنے کا امکان صرف 4.7 فیصد ہی تھا۔ سال 2019 میں بی جے پی کے جیتنے والے امیدواروں میں سے 39 فیصد پر فوجداری مقدمات درج تھے، جبکہ کانگریس کے 57 فیصد، دراوڑ منیترا کڈگم (ڈی ایم کے) کے 43 فیصد اور ترنمول کانگریس کے 41 فیصد امیدوار داغدار تھے۔
وہیں، 10 اگست یعنی منگل کے روز سپریم کورٹ نے دو الگ الگ فیصلوں کے ذریعے کہا کہ امیدوار کی نامزدگی سے متعلق تمام معلومات 48 گھنٹوں کے اندر شائع کی جائیں۔ سپریم کورٹ نے امیدواروں کے مجرمانہ ماضی کے بارے میں تفصیلات پیش کرنے کے لیے اپنی سابقہ ہدایات میں سے ایک میں ترمیم کر دی۔
عدالت نے کہا کہ ’’ہم واضح کرتے ہیں کہ 13 فروری 2020 کے ہمارے آرڈر کے پیرا 4.4 میں موجود ہدایت میں ترمیم کی جائے اور یہ واضح کیا جاتا ہے کہ جن تفصیلات کو شائع کرنا ضروری ہے وہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی پہلی تاریخ سے دو ہفتے پہلے نہیں بکہ امیدوار کے انتخاب کے 48 گھنٹوں کے اندر شائع کی جائیں۔‘‘
سیاست کو جرائم سے پاک بنانے کے لئے بہار میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) سمیت 9 سیاسی جماعتوں کو منگل کے روز 2020 کے اسمبلی انتخابات میں عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ مجرمانہ ماضی رکھنے والے افراد کو قانون ساز نہیں بننے دیا جانا چاہیے لیکن ایسے افراد کی سیاست میں شمولیت کو روکنے کے لیے ضروری ترامیم متعارف کرانے کے حوالے سے عدالت کی جانب سے کی گئی اپیلوں پر کسی نے توجہ نہیں دی اور سیاسی جماعتوں نے اس معاملے میں گہری نیند سے بیدار ہونے سے انکار کر دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔