وارانسی میں لڑکیوں کی ہمت نے ’فحش تصاویر‘ سے ٹھگنے والے گروہ کا کیا پردہ فاش، 2 ملزمین پولیس گرفت میں

سائبر جرائم کے خلاف بی ایچ یو کی دو طالبات نے آواز اٹھائی تھی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ خود کو آئی پی ایس گپتا اور ڈی ایس پی دیپک بتانے والے افراد عریاں تصویریں بھیج کر پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

گرفتار، تصویر آئی اے این ایس
گرفتار، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

اتر پردیش کے وارانسی میں ٹھگی کرنے والے ایک ایسے گروہ کا پردہ فاش ہوا ہے جو ایڈٹ کی ہوئی فحش تصویروں سے خواتین کو بلیک میل کر پیسے اینٹھتا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو ملزمین کی گرفتاری بھی ہو چکی ہے اور یہ دو لڑکیوں کی ہمت کے وجہ سے ہو سکا۔ ملزمین کے پاس سے دو موبائل فون برآمد ہوئے ہیں جن میں کئی فحش تصاویر موجود ہیں۔

موصولہ خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ سائبر جرائم کے خلاف بی ایچ یو کی دو طالبات نے آواز اٹھائی تھی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ خود کو آئی پی ایس انکت گپتا اور ڈی ایس پی دیپک بتانے والے افراد ایڈیٹیڈ (عریاں) تصویریں بھیج کر پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ طالبات نے لنکا تھانہ میں مقدمہ درج کر شکایت کی کہ ان کو لگاتار فون کر کے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں سائبر سیل اور لنکا تھانہ کی پولیس نے مل کر تفتیش شروع کی اور دو ملزمین کی گرفتاری نریا علاقہ سے ہوئی۔ ملزمین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر جھانسی کے باشندہ ہیں۔


ہندی نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع رپورٹ کے مطابق پولیس ٹیم نے جن دو ملزمین کو گرفتار کیا ہے ان کے نام چندرپال اور محمد نصیر ہیں۔ ان کے قبضے سے جو دو موبائل برآمد کیے گئے ہیں ان کی گیلری کھولتے ہی پولیس والے بھی حیران رہ گئے۔ فون میں کئی خواتین اور لڑکیوں کے نمبر موجود تھے، ساتھ ہی فون کی گیلری میں خواتین اور لڑکیوں کی ایڈیٹیڈ تصویریں بھی تھیں۔ انہی تصویروں کو بھیج کر یہ گروہ خواتین اور لڑکیوں کو شکار بناتا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمین شاطر جرائم پیشے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں سے واٹس ایپ پر بات کرتے وقت آئی پی ایس انکت گپتا اور ڈی ایس پی دیپک کی تصویر کا استعمال کرتے تھے۔ اس دوران کہتے تھے کہ آپ کی قابل اعتراض تصاویر وائرل ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے خلاف شکایت بھی درج کرائی گئی ہے۔ اس طرح ڈرا کر خواتین کو جھانسے میں لیتے تھے اور پھر پیسوں کا مطالبہ ہوتا تھا۔ ان پیسوں کو الگ الگ اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کیا جاتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔