گجرات کے موربی میں 147 طلبا 2 ماہ سے نہیں کھا رہے ’دلت خاتون‘ کا بنایا مڈ ڈے میل، شکایت درج
16 جون سے کولی، بھرواڑ، ٹھاکور اور گڑھوی جیسے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے 147 طلبا مڈ ڈے میل نہیں کھا رہے۔ کئی بچوں کے والدین اس بات سے خفا ہیں کہ دلت خاتون کو رسوئیا کیوں بنایا گیا ہے۔
تقریباً دو ماہ ہو گئے ہیں جب گجرات کے موربی ضلع واقع ایک اسکول میں 147 طلبا سرکاری کے ذریعہ پیش کردہ مڈ ڈے میل کا کھانا نہیں کھا رہے ہیں۔ ان سبھی طلبا نے مڈ ڈے میل کھانے سے انکار اس لیے کر دیا ہے کیونکہ اس کو بنانے والی خاتون دلت ہے۔ ایسے وقت میں جب چھوا چھوت اور اونچ نیچ کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، موربی کے اسکول میں 147 طلبا کا دلت خاتون کے ہاتھوں بنا کھانا کھانے سے منع کرنا حیرت انگیز ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ طلبا کے سرپرست ہی نہیں چاہتے کہ ان کے بچے دلت ہاتھوں سے بنا کھانا کھائیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 16 جون سے کولی، بھرواڑ، ٹھاکور اور گڑھوی جیسے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے 147 طلبا مڈ ڈے میل نہیں کھا رہے۔ کئی بچوں کے والدین اس بات سے خفا ہیں کہ دلت خاتون کو رسوئیا کیوں بنایا گیا ہے۔ اسکول انتظامیہ اور ضلع پولیس کے مطابق ذمہ داران کے ذریعہ دھارا مکوانا نامی دلت خاتون کو سوکھڑا گاؤں واقع سوکھڑا پرائمری اسکول میں مڈ ڈے میل بنانے کا ٹھیکہ جون میں دیا گیا تھا۔ 16 جون کو دھارا مکوانا نے تقریباً 153 طلبا کے لیے کھانا بنایا تھا۔ ان میں سے او بی سی طبقہ کے 147 طلبا نے اپنے والدین کی نصیحت پر کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ یہ بات حال ہی میں موربی تعلقہ پولیس انسپکٹر کے پاس داخل ایک شکایت میں کہی گئی ہے۔
اس معاملے میں دھارا مکوانا کے شوہر گوپی مکوانا کا بیان ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ایک رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق گوپی مکوانا کا کہنا ہے کہ ’’چونکہ طلبا اپنا کھانا لینے کے لیے قطار میں نہیں بیٹھے تھے، اس لیے میں نے کچھ والدین سے پوچھ تاچھ کی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو ایک دلت خاتون کا بنا کھانا نہیں کھانے دے سکتے۔‘‘ گوپی نے بتایا کہ بڑی تعداد میں بچوں کے کھانا نہ کھانے سے بہت سارا تیار کیا ہوا کھانا برباد ہو گیا۔ اس کے بعد اسکول انتظامیہ نے سرپرستوں سے بات کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
گوپی مکوانا نے اس معاملے میں پولیس میں شکایت بھی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’میں نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے جسے ایک ڈپٹی ایس پی کو منتقل کر دیا گیا۔ پولیس افسران نے مجھےب تایا کہ یہ اسکول اور ضلع انتظامیہ سے متعلق معاملہ ہے اور وہ اس میں مداخلت نہیں کر سکتے ہیں۔‘‘ اس معاملے میں دھارا مکوانا کا کہنا ہے کہ ذات پر مبنی تعصب کی وجہ سے انھیں استحصال کا شکار بنایا گیا ہے اور پولیس کو مداخلت کرنی چاہیے۔
اس معاملے کی تصدیق اسکول کی پرنسپل بندیا رتنوتر نے بھی کی ہے۔ انھوں نے مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے اسکول مانیٹرنگ کمیٹی کے ساتھ دو میٹنگیں بھی کیں جس میں کچھ بچوں کے والدین بھی شامل تھے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ والدین اس بات پر بضد ہیں کہ دلت رسوئیا کے ہاتھوں کا کھانا وہ اپنے بچوں کو کھانے نہیں دے سکتے۔ پرنسپل بندیا رتنوتر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’وہ اپنی ذات پرستانہ سوچ کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم بچوں کو ذات پرستی والا رویہ نہ رکھنا سکھا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ سب برابر ہیں اور کوئی بھی اچھوت نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ان کے والدین کو نہیں منا سکتے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔