معروف شاعر اور ماہنامہ ’شاعر‘ کے مدیر اعلیٰ افتخار امام صدیقی کی ناریل واڑی قبرستان میں تدفین
مدیرِ شاعر افتخار امام صدیقی نے زندگی کی آخری سانس ماہ نامہ شاعر کے دفتر واقع دینار بلڈنگ گرانٹ روڑ پر ہی لی۔ اور یہیں سے ان کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لئے ناریل واڑی قبرستان لے جایا گیا۔
مشہور ادبی ماہنامہ "شاعر" کے مدیراعلیٰ اور معروف شاعر افتخار امام صدیقی کا آج ممبئی میں فجر کے وقت انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 75 سال تھی۔ ان کی تدفین بعد نمازِ ظہر ناریل واڑی قبرستان میں عمل میں آئی۔ تدفین میں ممبئی و مضافات کی علمی و ادبی اور صحافتی شخصیات شریک تھیں۔ افتخار امام صدیقی گزشتہ چالیس برس سے زیادہ عرصے سے ماہ نامہ شاعر کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر گشت کرتے ہی ممبئی کی علمی و ادبی فضا سوگوار ہوگئی اور سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
افتخار امام صدیقی کے چھوٹے بھائی اور معروف شاعر حامد اقبال صدیقی نے بتایا کہ بھائی نے فجرکے وقت آخری سانس لی۔ افتخار امام صدیقی کئی دنوں سے صاحب فراش تھے۔ گزشتہ تین ماہ سے کافی علیل تھے جسم کے اعضاء نے ساتھ دینا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ ممبئی میں کووڈ کی وجہ سے بگڑتے حالات کےپیشِ نظر افتخار امام صدیقی کو اسپتال سے گھر منتقل کردیا گیا تھا، جہاں اسپتال سے متعلق تمام تر سہولیات دستیاب کروائی گئی تھی۔ لیکن الله کو کچھ اور منظور تھا۔ مدیرِ شاعر افتخار امام صدیقی نے زندگی کی آخری سانس ماہ نامہ شاعر کے دفتر واقع دینار بلڈنگ گرانٹ روڑ پر ہی لی۔ اور یہیں سے ان کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لئے ناریل واڑی قبرستان لے جایا گیا۔
گل بوٹے کے مدیر اور صحافی فاروق سید نے بتایا کہ بعد نمازِ ظہر تقریباً ڈھائی بجے کے قریب ناریل واڑی قبرستان میں افتخار امام صدیقی کی تدفین عمل میں آئی۔ معروف شاعر، ممبئی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے استاد اور ادبی رسالے اردو چینل کے مدیر قمر صدیقی نے بتایا کہ 2002 کے ٹرین حادثے کے بعد افتخارامام صدیق چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ اس کے باوجود شاعر کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی معذوری کو درمیاں نہیں آنے دیا اور مسلسل محبت و مشقت سے خاص نمبر نکالے اور مالی دشواریوں کے باوجود شاعر کی اشاعت کا تسلسل برقرار رکھا۔ قمر صدیقی کے مطابق افتخار امام صدیقی کا انتقال اردو کی ادبی و مجلاتی صحافت کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ماہ نامہ شاعرکو جدید رنگ ڈھنگ میں ڈھالنے اور اسے دور دور تک پہچانے میں افتخار امام صدیقی کی کوشش ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے کئی ادبی شخصیات کے انٹرویو کیے اور خاص نمبر شائع کیے۔
افتخار امام صدیقی کا تعلق خاندانِ سیماب اکبرآبادی کے چشم و چراغ تھا۔ افتخار امام صدیقی 19 نومبر 1947 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اعجاز صدیقی تھے اور دادا اردو ادب کے مشہور شاعر سیماب اکبرآبادی تھے۔ سیماب کے تقریباً تین ہزار سے زائد شاگرد تھے۔ سیماب جب ممبئی آئے تو یہاں بھی انہوں نے شاعر کو جاری رکھا۔ بٹوارے کے بعد سیماب اکبرآبادی پاکستان چلے گئے۔ لیکن ان کے لڑکے اعجاز صدیقی نے ہندوستان نہیں چھوڑا۔ اعجاز صدیقی کے بعد شاعر کی وارثت افتخار امام صدیقی کے حصے میں آئی، جسے انہوں آخری دم تک اپنے بھائی نعمان صدیقی اور حامد اقبال صدیقی کے تعاون سے جاری رکھا۔
افتخار امام صدیقی کا شعری مجموعہ چاند غزل، یہ شاعری نہیں ہے زیر ترتیب ہیں۔ البتہ ان کی غزلیں جگجیت سنگھ، چترا سنگھ، پنکج اداس اور سدھاملہوترا جیسے گلوکاروں نے گائی ہیں۔ افتخارامام صدیقی ہند-پاک کے مشاعروں میں شرکت کرتے اورترنم میں اپنا کلام سناتے، لیکن 11 مارچ 2002 کو کسی مشاعرے سے واپسی کے وقت جپلور میں ٹرین حادثے سے دوچار ہوئے اور اس کے بعد سے مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ ترک کر دیا۔
افتخارامام صدیقی کو ان کی ادبی خدمات کے عوض مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے علاوہ مختلف سیاسی اور سماجی تنظمیوں کی جانب سے ایوارڈ اور سپاس ناموں سے نوازہ جاچکا ہے۔
1930 سے شائع ہونے والا ماہنامہ شاعر
اپنی عمر کی 91 ویں بہار میں داخل ہوچکا ہے۔ افتخار امام صدیقی کے انتقال کے بعد اب ’شاعر‘ کی اشاعت اور ادبی و صحافتی روایت کو جاری و ساری رکھنا خاندانِ سیماب کے لئے ضروری ہوگیا ہے۔ کیونکہ اگر شاعر اپنی عمر کے 100 مکمل کرتا ہے تو ادبی صحافت کی تاریخ میں یہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔