والد کی موت 1956سے پہلے ہوئی تو بیٹی جائیداد کی حقدار نہیں! بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ
2007 کے ایک معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا "اگر باپ کی موت ہندو ورثہ قانون 1956 کے نفاذ سے پہلے ہو چکی ہے، اوراس کی بیٹی اور بیوہ دونوں ہیں تو بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا"
بامبے ہائی کورٹ نے جائیداد تنازع سے جڑے ایک معاملے میں بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اگر باپ کی موت ہندو ورثہ قانون 1956 کے نفاذ سے پہلے ہو چکی ہے، اور مرنے والا اپنے پیچھے بیٹی اور بیوہ دونوں کو چھوڑ کر گیا ہے تو بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا۔ بیٹی کو مکمل اور محدود وارث نہیں مانا جاسکتا۔ جسٹس جتیندر جین اور اے ایس چندورکر کی بنچ نے ایک تنازع کو لے کر 2007 سے التوا میں پڑے اس کیس میں فیصلہ سنایا۔
اس معاملے کو لے کر دو سنگل ججوں کی بنچ کے الگ الگ خیالات سامنے آنے کے بعد کیس کو دو رکنی بنچ کو ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ بنچ سے یہ طے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ بیٹی کو اپنے والد کی جائیداد میں کوئی حق مل سکتا ہے؟ بیٹی کے وکیلوں کا کہنا تھا کہ ہندو ورثہ قانون 1956 کے تحت بیٹیوں کو بھی وارث تسلیم کیا جانا چاہیے۔ 1937 کے قوانین کے مطابق بیٹی کو بیٹے کے برابر مانا جانا چاہیے۔ 2005 میں بھی ہندو ورثہ قانون میں ایک ترمیم کیا جا چکا ہے۔ وہیں دوسری شادی سے ہوئی بیٹی کے وکیل نے حوالہ دیا کہ اس کی ماں کو پوری جائیداد وراثت میں ملی ہے۔ والد کی موت 1956 سے پہلے ہوئی ہے۔ اس لیے اس کا ہی پوری جائیداد پر حق ہے۔ 1937 کے قانون میں صرف بیٹوں کا ذکر ہے، بیٹیوں کا نہیں۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ 1952 میں ممبئی کے یشونت راؤ کی موت ہو گئی تھی۔ ان کے کنبہ میں دو بیویاں اور ان کی تین بیٹیاں تھیں۔ اپنی پہلی بیوی لکشمی بائی کے 1930 میں انتقال کے بعد یشونت راؤ نے بھیکو بائی سے دوبارہ شادی کی جن سے ان کی ایک بیٹی چمپو بائی تھی۔ کچھ سال بعد ان کی پہلی شادی سے ان کی بیٹی رادھا بائی نے اپنے والد کی نصف جائیداد پر دعویٰ کرتے ہوئے جائیداد کے بٹوارے کا مطالبہ کرتے ہوئے مقدمہ دائر کر دیا۔ سنگل ٹرائل کورٹ نے ان کے دعوے کو خارج کر دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ ہندو خاتون ملکیت حق قانون 1937 کے تحت جائیداد صرف بھیکو بھائی کو وراثت میں ملی تھی اور ہندو ورثہ قانون کے تحت 1956 میں وہ اس کی وارث بن گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔