تلنگانہ: مسجد میں مورتی رکھ کر پوجا کی کوشش، ایف آئی آر درج
شرپسندوں نے گولکندہ قلعہ کے نزدیک واقع تقریباً 400 سال پرانی ایک مسجد میں شیو کی مورتی رکھ دی اور فرار ہو گئے۔
گولکنڈہ قلعہ کے نزدیک واقعہ مسجد میں کچھ شرپسندوں نے شیوکی مورتی رکھ دی ۔ پولس نے بلا تاخیر کارروائی کرتے ہوئے مورتی کو وہاں سے ہٹا دیا۔ حالات پر قابو رکھنے کے لئے موقع پر پولس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ۔
تلنگانہ میں شرپسندوں کی طرف سے مذہبی ہم آہنگی بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شرپسندوں نے گولکندہ قلعہ کے نزدیک واقع تقریباً 400 سال پرانی ایک مسجد میں شیو کی مورتی رکھ دی اور فرار ہو گئے۔ واقعہ کی اطلاع موصول ہوتے ہی پولس حرکت میں آئی اور صورت حال کو سنبھال لیا۔ پولس نے مسجد سے شیوکی مورتی کو فوری طور سے ہٹوا دیا ہے۔
انگریزی ویب سائٹ ’دی نیوز منٹ ‘ کے مطابق شرپسندوں نے یکم مئی کو اس حرکت کو انجام دیا۔ ایک مقامی نوجوان نے پولس کو مسجد میں شیوکی مورتی رکھ دینے کی اطلاع دی تھی۔ کارواں حلقہ انتخاب سے رکن اسمبلی کوثر محی الدین کو بھی اس حوالہ سے مطلع کیا گیا تاکہ ک حالات قابومیں رکھے جاسکیں۔ علاوہ ازیں پولس نے موقع پر پولس پوسٹ کا قیام کر دیا ہے تاکہ نظم و نسق کی صورت حال برقرار رکھی جا سکے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس واقعہ کے بعد سے علاقہ میں کشیدگی کا ماحول ہے۔
پولس نے اس معاملہ میں ایف آئی آر درج کر لی ہے اور 5 ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے ۔مسجد میں مورتی رکھنے کے لئے بیر سنگھ، یوگیندر سنگھ، کرپال سنگھ، نوین سنگھ اور مایا بائی کو ملزم بنایا گیا ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ پانچوں ملزمان وقف بورڈ کی ملکیت والی مسجد میں داخل ہوئے اور وہاں شیو کی مورتی رکھ دی۔ ان لوگوں نے وقف کی ملکیت پر قبضہ کرنے کی نیت سے وہاں پوجا ارچنا بھی کی۔
مجلس بچاؤ تحریک نامی تنظیم نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف کارواں سے رکن اسمبلی محی الدین نے کہا کہ ’’ہم لوگ چہاردیواری کو اونچا کر کے مسجد کا انتظام پوری طرح سے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے وقف بورڈ کے افسران سے بات کر کے چہار دیواری تعمیر کرنے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے دو-تین دن میں کام شروع کرنے کا بھروسہ دیا ہے۔ ‘‘ واضح رہے کہ کافی وقت سے اس مسجد میں نماز ادا نہیں کی جاتی ہے ۔
گولکنڈہ قلعہ کے نزدیک واقع اس مسجد کی تعمیر 17 ویں صدی میں قطب شاہی سلطنت کے دور میں کی گئی تھی۔ یہ تاریخی مسجد آندھرا پردیش قد یمی ، تاریخی، یادگاری اور آثار قدیمہ قانون کے تحت ایک محفوظ عمارت ہے۔ اس کے باوجود رکھ رکھاؤ اور خاطر خواہ نگرانی کے فقدان کے سبب اس طرح کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 May 2018, 5:45 PM